سری نگر(کے پی آئی) سری نگر میں جی بیس اجلاس کے نام پر تین روز سے شہریوں کی نقل وحرکت پر پابندی ہے۔ سری نگر میں جی بیس اجلاس کے حفاظتی اقدامات کے نام پر فوجی قلعے میں تبدیل کردیا گیا تھا جس کے باعثلال چوک، بڈھ شاہ چوک، ریذیڈنسی روڈ، مائسمہ اور دیگر علاقوں کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بھارتی فوج، پولیس اور پیراملٹری فورسز اہلکاروں نیجی 20اجلاس کے مندوبین کی سیکورٹی کے نام پر شہریوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ فورسز اہلکار ان کے گھروں میں گھس کر خواتین اور بچوں سمیت مکینوں کو سخت ہراساں کررہے ہیں۔۔ علاقے کی فضائی نگرانی کے لیے ڈرونز کا استعمال کیاجارہا ہے جبکہ کئی سطح کی سکیورٹی کے لئے بھارتی فوج ، پیراملٹری فورسز اورپولیس کے علاوہ نیشنل سیکیورٹی گارڈ زاور میرین کمانڈوز جیسی ایلیٹ فورسز کو بھی تعینات کیاگیاہے۔ گلی کوچوں یہاں تک کہ گھروں کی چھتوں پر بھی صرف بھارتی فورسز کے اہلکار نظرآتے ہیں اورکشمیری عوام کوگھروں کے اندر محصور کردیا گیاہے۔ مغربی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت نے بندوقوں کے سائے میں سری نگر میں جی بیس اجلاس کے زریعے جموں وکشمیر میں حالات معمول پر لوٹ آنے کے اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی کی تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کرکے مودی حکومت وادی کے معمول پر لوٹ آنے کے اپنے دعوے کو درست ثابت کرنا چاہتی ہے۔ تاہم یہ میٹنگ بندوقوں کے سائے میں ہو رہی ہے۔ ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کے علاوہ نیشنل سکیورٹی گارڈ کے خصوصی کمانڈوز اور بحریہ کے خصوصی مارکوس حفاظتی دستوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔سرینگر میں متعدد اسکولوں کو بند کرا دیا گیا ہے جب کہ تاجروں نے شکایت کی ہے کہ ہڑتال کی اپیل کے باوجود انہیں دکانیں کھلا رکھنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔بھارتی وزیر جتیندر سنگھ فرانسیسی صحافی سے بھی ناراض ہو گئے جب ایک فرانسیسی صحافی نے "انتہائی سکیورٹی اور میٹنگ کی وجہ سے اسکولوں کو بند کر دینے کے بارے میں پوچھا تو جتیندر سنگھ بحث پر اترآئے حتی کہ یہ بھی کہا کہ وہ سکیورٹی کے متعلق سوالات پوچھ کر مندوبین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔