تعلیم دشمنی اور بہاولپور یونیورسٹی کے مسائل

سیّد روح الامین

   کچھ عرصہ سے میرا ملک ”سازشوں“ کی زَد میں ہے۔ کوئی ایک ادارہ بھی ٹھیک طرح سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا۔ سب اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کونیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے۔ فوج جیسے منظم ادارے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے۔ ہر ایک اپنی ”چودھراہٹ“ چاہتا ہے۔ آئین اور قانون کو تو مذاق بنا دیا گیا ہے۔ فیصل واڈا اور مصطفےٰ کمال جیسے حکومتی افراد عدلیہ کو سرِعام للکارتے نظر آتے ہیں۔ خواجہ آصف اور طارق بشیر چیمہ اسمبلی تقاریرمیں جو زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں بس خدا کی پناہ۔ غریبوں پر ٹیکسز کے انبار لگائے جا رہے ہیں۔ دبئی لیکس سمیت دیگر لوٹ مار کی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔ ملکی تقریباً سبھی ادارے جامد ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ لگتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک میں تعلیم کا بھی کام تمام کیا جا رہا ہے۔ کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیلوں پر تو کروڑوں روپے لٹائے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف تعلیم کا یہ حال ہے کہ درجنوں جامعات وائس چانسلرکے بغیر چل رہی ہیں۔ تعلیمی بورڈز میں چیئرمینز نہیں ہیں۔ کالجز میں ہیڈ ماسٹرز نہیں ہیں۔ ویسے جب حکمران طبقہ بات کرتا ہے ہر کام کے لیے رٹے رٹائے جملے ”اولین ترجیح“ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم دشمنی نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک میں فارسی اورعربی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ غیر ملکی زبان انگریزی کو بچوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔ دنیا میں ہرملک میں تعلیم ان کی اپنی زبان میں دی جاتی ہے۔ 76سال سے ہم بانی¿ پاکستان اور 73ءکے آئین کے مطابق قومی زبان اردو کو نافذ نہیں کر سکے؟ کیوں؟ ہمارے حکمرانوں کو باریاں لینے اور لوٹ مار سے فرصت ہی نہیں۔ لاکھوں جانیں قربان کر کے وطنِ عزیز کے حصول میں کچھ مقاصد بھی کارفرما تھے۔ بخدا ہمارے حکمرانوں کو ان کا علم تک نہیں۔ بی۔ اے اور ایم۔ اے پرائیویٹ طور پر ملازم پیشہ افراد تعلیم حاصل کر لیتے تھے۔ HEC نے اِن دونوں ڈگریوں پر پابندی لگا دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں غریبوں کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہر کوئی بآسانی بی۔ اے اور ایم۔ اے کی ڈگری لیتا تھا، ساتھ یونیورسٹیوں کو بھی فیسوں کی مَد میں کروڑوں روپیہ اکٹھا ہوتا تھا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ گذشتہ دِنوں مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جانے کا اتفاق ہوا۔ چند اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی اور امتحانی عملہ سے بات کرنے کا موقع ملا۔ دلی دکھ ہوا یہ جان کر کہ پرچے چیک کرنے اورامتحان لینے والے صاحبان کو کئی کئی سالوں سے یونیورسٹی کی طرف سے ایک روپیہ بھی بطور معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ 
    میں حیران ہوں کہ کتنے عظیم ہیں یہ لوگ کہ جن اصحاب کو معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اس کے باوجود وہ پرچے بھی چیک کرتے جا رہے ہیں او رامتحانی عملہ اپنی ڈیوٹیاں بھی سرانجام دے رہا ہے۔ یہ لوگ دراصل محب وطن اورقابلِ ستائش ہیں۔ ڈاکٹر نوید اختر صاحب اس وقت قائم مقام وائس چانسلر ہیں۔ ان کو اس بات کا فوری طورپر نوٹس لینا چاہیے، وہ کس مرض کی دَوا ہیں۔ اپنے ادارے کے ملازمین کے لیے کیوں آواز نہیں اٹھاتے۔ افسران بالا سے بات کریں اور اپنے ملازمین کوان کے واجبات دلائیں۔ یہ ڈاکٹر نوید اختر صاحب کا پہلا فریضہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر نوید اختر پہلی فرصت میں گورنرپنجاب بلکہ اگروزیراعظم سے بھی بات کرنا پڑے تو یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان و دیگر ملازمین کے لیے فوری طور پر ان سے رابطہ کریں تاکہ اِن کے واجبات ان کو مل سکیں۔ طارق بشیر چیمہ صاحب صرف اسمبلی کے فلورپر خواتین کو گالیاں ہی نہ دیں بلکہ اپنے علاقے کی بڑی یونیورسٹی کے مسائل بھی وہاں اجاگر کریں اور ان کے لیے آواز اٹھائیں۔

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن