جون کے ابتدائی عشرے میں وفاقی میزانیہ پیش کر دیا جائے گا۔ نئی اتحادی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ کیسا ہوگا؟ اس بارے میں کاروباری کمیونٹی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سب فکر مند اور بے کلی کا شکار ہیں کہ 2024-25کا بجٹ معیشت کے لیے کتنا سود مند ہوگا۔ وزارت خزانہ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ 7 ہزار ارب کے نئے ٹیکس لگانے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی ہے۔ نئے ٹیکس دہندگان کے نام پر دکانداروں کو پریشان کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا جانے والا ہے جس سے چھوٹے تاجر حکومت کے سامنے آجائیں اگر ایسا ہوا تو پھر اہل اقتدار کو سخت عوامی ردعل کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یہ درست ہے کہ وفاقی بجٹ حکومت کی طرف سے سالانہ معاشی پروگرام کہلاتا ہے دنیا بھر میں ریاستیں ایک سال کی خدمت کے لیے خود کو جواب دہ کرتی ہیں اسی ایک سالہ پروگرا م کی بدولت حکومتیں مقبولیت اور قبولیت کے مراحل طے کرتی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں بجٹ صرف اور صرف نئے ٹیکس عائد کرنے کا بہانہ جواز سمجھا جاتا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بعد سال بھر میں ٹیکس عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ پارلیمان سمیت کوئی ادارہ بھی عوام کا خیر خواہ نہیں جو ٹیکس درٹیکس پالیسی کے آگے بند باندھ کر غریب لوگوں کو ریلیف دلائے۔
ابھی ہم 11 مئی کو سہہ روزہ احتجاج پر آزاد کشمیر میں عوامی ردعمل دیکھ چکے۔ مہنگائی اور حکمرانوں کی بے نیازی سے متاثرہ عوام مشتعل ہوئے اور انوار حکومت کی جاہ و حشمت بہا کر لے گئے۔بھلا ہو وزیراعظم شہبازشریف کا جنہوں نے 23 ارب کا خصوصی پیکج دے کر معالات کو بند گلی میں جانے سے روک لیا۔آزاد کشمیر کے 42 لاکھ باشندوں نے اہل اقتدار کو بتا دیا کہ فرانس اور ایران میں کن وجوہ کی بناءپر انقلاب آئے تھے؟
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ہم نے اپنی پوری حیات میں عوامی زندگی کو اس قدر مضطرب اور بے چین نہیں دیکھا جیسی آج ہے۔ معاشی صورت حال نے'' رشتے'' چھین لئے ہیں۔ پاکستان کی 24 کروڑ افراد کی آبادی میں نصف تعداد کو دو وقت کی روٹی کے لیے جان کے لالے پڑے ہیں یعنی 12 کروڑ افراد کو دو وقت کی روٹی تک میسر نہیں۔ ایک کروڑ گریجویٹ روزگار کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں ،تین کروڑ نوجوان عدم روزگار سے مایوس ہیں۔وزیراعظم صاحب نے انکشاف کیا کہ دو کروڑ 80 لاکھ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں۔ انصاف کی فراہمی اور حصول میں جس قسم کی مشکلات حائل ہیں ان کا تصور کرنے سے جسم کانپ جاتا ہے ہم کہاں جارہے ہیں؟ قومی زندگی کا رخ کس طرف ہے، کئی سیاسی جماعت اور سیاسی لیڈر کو اس کا زرا بھر بھی احساس نہیں؟
سیاسی قائدین' سیاسی راہنما اور اسٹیک ہولڈز سرجوڑیں۔ وقت تیزی سے نکل رہا ہے اگر چوبیس کروڑ عوام کی خدمت کے جواز پر نئے ٹیکس عائد کرنے سے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو پھر فیصلہ پارلیمنٹ کی بجائے سڑکوں پر ہو گا۔ صبر' برداشت اور انتظار یہ تمام کیفیات وقت طلب ہیں، ہمارے خیال میں وہ وقت شائد گزر گیا ہے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہوش کے میدان میں آجانا چاہیے!!
دل میں طوفاں چھپائے بیٹھا ہوں
یہ نہ سمجھ کہ مجھ کو ”پیار“ نہیں
سپاس تشکر
7 مئی 2024ء کی شام میری ہمشیرہ محترمہ نے زندگی کی آخری سانسیں لیں انہیں اگلے روز پیرودھائی راولپنڈی کے قبرستان میں خاک کے سپردخاک کردیاگیا۔ دوستوں 'احباب اور بزنس کمیونٹی سے متعلق شخصیات نے جنازے میں شریک ہو کرتعزیتی کلمات سے ان روح کش لمحات میں ڈھارس بندھائی ،ہم ان کے شکر گزار ہیں اللہ کریم ان سب کو اپنی شان کے مطابق جزاءاور ثمر عطا کرے۔ ماں باپ کے بعد بہنوں کی اہمیت اور اپائنیت کا اپنا ہی مذا ہے، امام علی فرماتے ہیں'' جب تم اپنی بہنوں کے گھر جاو¿ تو ہاتھ بھر کے لے کر جاو¿ (یعنی تحائف لے کرجاو¿ ) یہ وہ حق ہے جو تمہیں والدین کی طرف سے ترکہ میں ملاہے'' دعا ہے اللہ پاک سب بہن بھائیوں کو محبت' موودت اور الفت کی ریشمی دوڑی میں باندھا رکھے، آمین(نوٹ: صاحب مضمون ایوان صنعت وتجارت اسلام آباد کے سینئر ممبر ہیں)