پاکستانی بدیشی خواتین اول

ہم پاکستان کی پہلی خاتون اول رعنا لیاقت علی خاں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ رعنا لیاقت علی کا پیدائشی تعلق مسیحی خاندان سے تھا۔ان کے والد نے ان کا نام شیلا آئرین پنت رکھا تھا جبکہ ان کا اپنا نام ڈینیل پنت تھا اور وہ ہندو سے عیسائی ہوئے تھے۔آج ہم پاکستان کی ان خواتین اول کا تذکرہ کریں گے جن کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ وہ غیر ملکی تھیں۔ان میں سے کچھ کی خدمات پاکستان کے لیے ناقابل فراموش ہیں کچھ شہرت کی بلندیوں تک پہنچیں اور کچھ کا تذکرہ حیران کر دینے والا ہے۔سب سے پہلے بات کرتے ہیں پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمد علی بوگرا کی، انکی دوسری اہلیہ کا نام عالیہ سدی تھا۔عالیہ سدی کو بوگرا کے ایما پر خاتون اول قرار دیا گیا تو ان کی پہلی اہلیہ حمیدہ نے طوفان اٹھا دیا۔اس پرباقاعدہ تحریک چلی جس میں رعنالیاقت علی خان بھی شامل تھیں۔ پاکستان کے پانچویں وزیراعظم حسین شہید سہروردی کی دوسری بیوی بھی غیر پاکستانی تھیں ان کی پہلی بیوی نور جہاں کا 1922ء میں انتقال ہو گیا تھا۔حسین شہید سہروردی 22 سال تک رنڈوے رہے۔
1944ء میں انہوں نے روسی تھیٹر سے وابستہ اداکارہ ویرا الیگزینڈرونا کالڈر سے شادی کر لی۔وہ پاکستان کی خاتون اول بنیں اور طلاق کے بعد امریکہ جا بسیں جبکہ اس جوڑے کا اکلوتا بیٹا راشد سہروردی برطانیہ میں رابرٹ ایس بی کے نام سے اداکاری کرتا ہے۔ فلم جناح میں اس نے نہرو کا کردار ادا کیا تھا۔
سکندر مرزا پاکستان کے صدر بنے تو ان کی اہلیہ ناہید مرزا کو خاتون اول ڈکلیئر کیا گیا۔یہ پاکستان میں ایرانی اتاشی کی اہلیہ تھیں اس سے طلاق لے کر سکندر مرزا سے شادی کر لی۔پاکستان کے ساتویں وزیراعظم فیروز خان نون کی اہلیہ کا تعلق آسٹریلیا کے عیسائی خاندان سے تھا۔ان کا نام وکٹوریا تھا۔شادی کے وقت وہ مسلمان ہوئیں اور اپنا نام وقار النساءرکھ لیا۔ فیروز خان نون وزیراعظم بنے تو یہ خاتون اول قرار پائیں۔ ان کا تذکرہ تھوڑی تفصیل سے بعد میں کریں گے۔
 پاکستان کے نویں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم کا نام امیر بیگم تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے تو ان کی دوسری اہلیہ نصرت بھٹو خاتون اول قرار پائیں۔ یہ نصرت ا صفہانی تھیں۔انکا تعلق ایران کے صاحب ثروت کرد خاندان سے تھا۔نصرت اصفہانی کے والد کا کاروبار کراچی اور بمبئی میں بھی تھا۔گریجویشن کرنے کے بعد نصرت اپنے والد سے ملنے کراچی آئیں تو ان کی ملاقات نوجوان بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی۔ملاقاتوں میں تسلسل بعد میں محبت میں بدل گیا اور محبت شادی پر منتج ہوئی۔ نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کے ساتھ آخری سانس تک وفا نبھائی۔
پاکستان کی کسی بھی خاتون اول نے اتنے دکھ اور غم نہیں سہے جتنے نصرت بھٹو کے حصے میں آئے۔ان کے ایک بیٹے شاہ نواز بھٹو نےمبینہ طور پر خود کشی کر لی،کچھ لوگ اسے قتل بھی کہتے ہیں جبکہ ان کے دوسرے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا گیا۔ ان کی بڑی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی دہشت گردی میں شہید کر دی گئیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کیس میں پھانسی لگا دی گئی۔ خود نصرت بھٹو نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران لاٹھیاں کھائیں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پھانسی کے کئی دہائیوں بعد سپریم کورٹ کی طرف سے یہ کیس دوبارہ کھولا گیا اور پھانسی کے فیصلے کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دیا گیا۔
اب تذکرہ کرتے ہیں فیروز خان نون کی اہلیہ وقار النساءنون کا، ان کی عظیم الشان خدمات کے پیش نظر ان کا تذکرہ ایک فیچر کا متقاضی ہے۔آج گوادر پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان کا حصہ بنانے میں سب سے بڑی کاوش بطور خاتون اول وقار النساءکی تھی۔ خان اعظم اسلم خان اپنی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ1956ءمیں برطانوی وزیراعظم سے گوادر پاکستان کو ملا۔ عمان بھی برطانیہ کی کالونی تھا۔ گوادر کو عمان سے پاکستان کا حصہ بنانا اور اسکی منظوری بیگم وقار النِسا نون کا کارنامہ ہے۔
اس وقت کے امریکی صدر یہ علاقہ اپنے وفادار شاہ ایران کو دلوانا چاہتےتھے لیکن اس وقت ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیگم وقار النسائ نون آگے بڑھیں اور تاریخ کے منفرد کردار برطانوی وزیراعظم ونسٹنٹ چرچل کے پاس جاپہنچیں۔ انہوں نے گوادر پاکستان کو دینے کے حق میں لابنگ کی اور کامیابی نے انکے قدم چومے۔ 
 1945ءمیں فیروز خان نون کی ہمسفر بننے کے بعد وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئیں ۔ انکی تعلیم وتربیت برطانیہ میں ہوئی۔ یہیں فیروزخان نون سے انکی ملاقات ہوئی جو اس وقت حکومت انڈیا کے برطانیہ میں ہائی کمشنر تھے۔شوہر کی سیاست میں اثر پذیری کو دیکھتے ہوئے بیگم نون کو اس پیچیدہ کھیل کے اسرارورموز سمجھنے میں مدد ملی اور انہوں نے سیاست کے بحربیکراں کی گہرائیوں کو جانا۔
وقارالنساءنون کے سیاسی سفر کا آغاز بھی یہیں سے ہوا اور وہ پنجاب صوبائی خواتین ذیلی کمیٹی کی رکن بنتے ہی مسلم لیگ کی ریلیوں اور جلسے جلوس کا اہتمام کرنے میں مصروف عمل ہوگئیں۔ پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک چلی تو وقار النساءنون نے برطانوی سرپرستی میں کام کرنیوالی خضرکابینہ کیخلاف احتجاجی مظاہرے اور جلوس منظم کرنے کا آغاز کیا اور تین بار گرفتار ہوئیں۔
قیام پاکستان کے بعد انہوں نے لٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال اور خبرگیری کیلئے متحرک کردار اپنا لیا۔ ہلال احمر کیلئے بھی انہوں نے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ شوہر کی وفات کے بعد بھی وقار النساءکی سماجی خدمات جاری رہیں۔پاکستان سے والہانہ محبت میں آخری دم تک وہ سرگرم عمل رہیں۔
1978ء میں صدر ضیاءالحق نے انہیں پاکستان ٹورسٹ ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی سربراہی کی ذمہ داری انجام دینے کی درخواست کی۔1987ءسے 1989ءتک پرتگال میں پاکستان کی سفیر کے طورپر بھی انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ 
خاندان اور دوستوں میں وہ ’وِکی نون‘ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ پاکستان سے محبت اور سماجی خدمت کیلئے انکے جذبہ کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ برطانیہ میں بے اولاد سوتیلی بہن اور اسکے شوہر نے جو ترکہ انہیں منتقل کیا، اسے بھی انہوں نے پاکستان میں سماجی خدمات کی فراہمی کے کارخیر میں لگادیا۔
 اس سرمایہ سے ایک فنڈبنایاگیا تاکہ اس میں مزید سرمایہ جمع ہوتا رہے اور یہ عوامی سماجی خدمت کیلئے کام آتا رہے۔بعدازاں انکی وصیت کی روشنی میں اس فنڈ کا خاطرخواہ حصہ آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں بچوں کیلئے استعمال ہونے لگا۔
بیگم نون کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی لیکن انہوں نے اپنے سوتیلے بچوں سے بے حد محبت کا رشتہ استوار کیا اور اسے نبھایا۔ انہوں نے عمرہ کیا اور وصیت کی کہ انہیں ایک کلمہ گو مسلمان کے طورپر دفن کیاجائے بیگم نون 16 جنوری 2000ءکو دارفانی سے راہی سفرِعدم ہوئیں۔
٭....٭....٭

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن