ایک مفکر نے درست کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ابھی تک نیشن بلڈنگ اور سٹیٹ بلڈنگ کے مرحلے سے گزر رہا ہے- عالمی مفکر پاکستان کے لیے" ناکام ریاست" کے الفاظ استعمال کرتے ہیں- پاکستان کے افراد دوسری قوموں کے مقابلے میں پوری طرح بیدار اور باشعور نہیں ہوئے- ریاستی ادارے بھی ابھی تک بصیرت اور بلوغت کی منزل پر پہنچنے سے قاصر رہے ہیں -اس افسوس ناک صورتحال کی کلیدی وجہ آئین کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے- آج سے 30 سال پہلے جب عدلیہ کے زیر سماعت مسئلہ کے بارے میں کسی سیاستدان سے سوال کیا جاتا تو وہ اس کا جواب دینے سے گریز کرتا اور یہ کہتا ہے کہ یہ مسئلہ چونکہ عدالت کے زیر سماعت ہے لہذا وہ اس پر اپنی رائے دینے سے قاصر ہے مگر افسوس آج آئین اور قانون ساز ادارے ہی آئین سے انحراف کرتے نظر آتے ہیں -
سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک پریس بریفنگ کے دوران عدلیہ کے ججوں کے بارے میں ایسے الفاظ بول دیئے جو مبینہ طور پر توہین عدالت کے زمرے میں آتے تھے- پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو سو موٹو نوٹس لینے میں بڑے محتاط ہیں فیصل وواڈا کی پریس بریفنگ کے بعد سو موٹو لینے پر مجبور ہوگئے اور سینٹر واوڈا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بادی النظر میں توہین عدالت کی ہے لہذا وہ عدالت میں پیش ہوکر وضاحت پیش کریں - پاکستان میں یہ روایت مستحکم ہو چکی ہے کہ جب بھی کسی پروفیشن سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کے خلاف تادیبی اور انضباطی کارروائی کی جاتی ہے تو اس پروفیشن سے تعلق رکھنے والے افراد آئین قانون اور قواعد و ضوابط کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں-سینٹ کے اجلاس میں آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عدلیہ کے ججوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا -اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان نے سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ پارلیمنٹ کے ایوان کو ججوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے - انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بات نہیں کی جا رہی یہ وہ ایشو ہے جس پر عدلیہ میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے- اخباری رپورٹ کے مطابق اس مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریاست کی گورننس اور اداروں کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے اور سیکرٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو عدالت میں طلب کر لیا-
سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ وقت بدلنے کے ساتھ بینیفیشریز بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں- کل جو لوگ عدلیہ کے ساتھ کھڑے تھے آج مخالف نظر آتے ہیں - سینیٹر ایمل ولی خان کے اس تبصرے سے احمد فراز یاد اتے ہیں جنہوں نے کہا تھا-
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
پی ٹی ائی کے سینیٹر محسن عزیز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کے وقار کا دفاع کیا جائے گا مگر معزز ایوان کو کسی کے ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے- انہوں نے کہا کہ فیصل واوڈا کو عدلیہ نے نہیں بلکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نااہل قرار دیا تھا- البتہ عدلیہ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا- انہوں نے کہا کہ سینٹ کے معزز ایوان میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات نہیں کی جاتی اور جب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے تو اس وقت بھی معزز ایوان میں کوئی آواز نہ اٹھائی گئی-ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ منتخب نمائندوں کی عزت نہیں کی جاتی اور ان کے خلاف افسوسناک ریمارکس میڈیا پر نشر کیے جاتے ہیں- انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کا بالادست ادارہ ہے جس کا وقار ہر صورت قائم رکھنا چاہیے-
سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ ان کو صرف اس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا کہ وہ پاناما لیکس کے مقدمے کے دوران اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے رہے- انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے وقار کے لیے لازم ہے کہ وہ آئین بنانے والوں کی بجائے آئین توڑنے والوں کو سزا دے -جمعیت العلمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ سینٹ اور سینٹرز کا وقار قائم رہنا چاہیے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینٹ کا اجلاس چند ججوں کو نشانہ بنانے کے لیے بلایا گیا ہے- انہوں نے کہا کہ جب عدلیہ کے فیصلے ایک پارٹی کے خلاف جاتے ہیں تو عدلیہ پر تنقید کی جاتی ہے-سینیٹر راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ریاست کو آئین کی بالادستی کے اصول پر چلایا جائے تو ریاستی اداروں میں تناو اور کشیدگی کو ختم کیا جا سکتا ہے مگر افسوس کہ پاکستان میں پیپلز پالیٹکس کی بجائے پاور پالیٹکس کی جا رہی ہے-
وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ نے کہا کہ ریاستی اداروں کے درمیان کوئی ٹکراو نہیں ہے ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی جج کو غصے کی حالت میں من مرضی کے ریمارکس دینے سے گریز کرنا چاہیے- ایک جج نے وزیراعظم اور کابینہ کو عدالت میں بلانے کی بات کی تھی انہوں نے کہا کہ ججوں کو بولنے کی بجائے اپنے ریمارکس اپنے فیصلوں میں تحریر کرنے چاہیں- پاکستان کے تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنے فرائض انجام دینے چاہیں-انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے قانون کو کسی کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے-انہوں نے تجویز پیش کی کہ سینٹ میں زیر بحث توہین عدالت کے نوٹس کے ایشو کو سینٹ کے سیکرٹیریٹ پر چھوڑ دیا جائے-سینٹ کے اس اجلاس کی پریزائڈنگ آفیسر سینیٹر شیری رحمان نے سینٹ سیکرٹیریٹ کو ہدایت کی کہ وہ آئین اور سینٹ کے قواعد و ضوابط کی روشنی میں اس ایشو کے بارے میں اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے-پاکستان اور عوام دوست باشعور عوام کی رائے ہے کہ پارلیمنٹ کو مسائل کو الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوشش کرنی چاہیے -
سینٹ میں بحث اور آئین کے تقاضے
May 25, 2024