وہ مرنے کے بعد بھی وائرل ہو گئی۔

غزہ اور رفح میں موت صبح سویرے بچوں کے شکار پر نکلتی ہے۔ یہ شکار صبح سے دوپہر تک دوپہر سے شام تک، شام سے رات تک اور رات سے رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ موت کو ڈبل نہیں، ٹرپل شفٹ پر کام کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وقت شاید کم ہے۔ موت کو سر کھجانے سے فرصت نہیں ملتی۔ 
غزہ میں ہر وقت جنازوں کا وقت ہے۔ صبح ، دوپہر، شام، رات تک جنازے اٹھتے ہیں۔ دفنانے کیلئے جگہ کم پڑ گئی ہے۔ کہیں سے بھی زمین کھودو، کوئی نہ کوئی میت نکل آئے گی۔ ایک آدمی کا جنازہ کہیں نہیں اٹھتا۔ ہر جنازہ اجتماعی ہوتا ہے بارہ میتیں، بیس میتیں، پچاس میتیں۔ 
ہزاروں ایسے بچے شہید ہو گئے جن کے ماں باپ زندہ ہیں اور ہزاروں ایسے بچے شہید ہوئے جن کے ماں باپ بھی شہید ہو چکے ہیں۔  ہزاروں بچے ایسے زندہ بچ گئے جن کے ماں باپ نہیں رہے۔ ان میں پانچ سال کے یا اس سے زیادہ عمر والے بچوں کو تو پتہ چل گیا کہ ان کے ماں باپ اسرائیل نے مار دئیے لیکن اس سے کم عمر، خاص طور سے تین اور دو سال کی عمر والوں کو کون کیسے بتائے کہ ان کے ماں باپ نہیں رہے۔ وہ یتیم ہو گئے لیکن انہیں یتیم کے لفظ کے معنے کا بھی پتہ نہیں۔ وہ رات روتے روتے سو جاتے ہیں کہ صبح ماما آ جائے گی، انہیں سینے سے لگا لے گی یا پایا آ جائیں گے یا دونوں آ جائیں گے لیکن کوئی نہیں آتا۔ دو تین سال کی عمر کے ان یتیموں کو سمجھنے کیلئے کہ وہ یتیم ہو گئے ہیں، ابھی دو تین سال کا انتظار اور کرنا پڑے گا لیکن شاید نہیں۔ کوئی بھی اگلی بمباری ان کا انتظار ختم کر سکتی ہے۔ 
کئی ویڈیوز بہت وائرل ہوئی ہیں۔ تین سال کی سدرہ جو پہلی بار اپنے باپ کے ساتھ غزہ کے ساحل پر گئی اور پانی کی لہریں اور موجیں دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی۔ اس کے اِدھر اْدھر بے ساختہ دوڑنے کی ویڈیو دو روز میں لاکھوں افراد نے دیکھی، تیسرے دن وہ سینکڑوں ٹن وزنی ملبے تلے بے جان پڑی تھی۔ اس کے اعضا کٹ چکے تھے، جسم پس چکا تھا۔ یہ تصویر بھی بہت وائرل ہوئی۔ 
اور ایک نابینا بچی، تین چار سال کی رازن کی ویڈیو بھی بہت دیکھی جا رہی ہے۔ وہ کھڑی ہے۔ سوالوں کا جواب دے رہی ہے۔ کبھی روتی ہے، کبھی سسکیاں بھرتی ہے۔ کبھی چپ ہو جاتی ہے تو آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں۔ وہ کہہ رہی ہے : وہ روز ہمیں گولیاں مارتے ہیں۔ ہم سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ تم لوگ ہمیں کیوں مار رہے ہو، تم ہمارے ساتھ یہ سب کیوں کر رہے ہو، ہم نے کیا کیا ہے__ ہر وقت بمباری ہوتی ہے، ہم سو بھی نہیں سکتے بم سارا دن ، ساری رات گرتے ہیں۔ ہم نے کیا قصور کیا ہے۔ بچی بری طرح رونے لگتی ہے اور انٹرویو ختم ہو جاتا ہے۔ 
معمول یہ ہے کہ کسی خاندان کا ایک جی مر جاتا ہے، خاندان کے باقی سب لوگ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں۔ غزہ میں مناظر کچھ اور ہیں۔ پورا خاندان مر جاتا ہے، بس ایک جی رہ جاتا ہے۔ اتنی ساری میتوں کیلئے جنازہ پڑھنے والا، خاندان کا صرف ایک آدمی۔ ایک بزرگ 18 جنازوں پر رو رہا ہے۔ اس کے بیٹے بیٹیاں بیوی پوتے پوتیاں سب مر گئے، وہ تنہا رو رہا ہے اور الوداعی سلام کرتے ہوئے اپنے پیاروں سے کہتا ہے، اوپر جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بتانا کہ آقا، آپ کی امّت ناکام ہو گئی ہے۔ 
غزہ کے لوگ کچھ عرصہ پہلے تک یہ سوال اکثر میڈیا والوں سے پوچھتے تھے، عرب کہاں ہیں، عربوں کو کیا ہوا، مسلمان امّت کہاں ہے، مسلمان حکمران کیا کر رہے ہیں۔ یہ سوال کثرت سے کرتے تھے، اب یہ سوال کرتا ہوا کوئی بھی آدمی نظر نہیں آ رہا۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ عربوں اور مسلمانوں تک ان کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔ سب اسرائیل کے اتحادی ہیں۔ اسرائیل کو تیل دیتے ہیں، ایندھن دیتے ہیں، خوراک ، پھل پانی دیتے ہیں اور آباد کاروں کو سیمنٹ اور سریا دیتے ہیں اور ہفتے میں ایک آدھ بیان سیزفائر کا بھی جاری کر دیتے ہیں۔ 
معاملہ اب صرف بمباری کا نہیں رہا۔ اسرائیل نے سنائپر اتار دئیے ہیں جو گلی کوچوں میں بچوں کا شکار کرتے ہیں۔ پھر وہ بچہ چاہے تین سال کا ہو یا تیرہ سال کا۔ 
اور معاملہ صرف غزہ کا ہی نہیں رہا۔ سنائپر مغربی کنارے میں بھی اتار دئیے گئے ہیں۔ بلاوجہ ، بلاجواز، بلاضرورت وہ بچوں بوڑھوں سبھی کو مار رہے ہیں۔ ایک بڑھیا اپنی معذور بیٹی کو لے کر جا رہی تھی، سنائپرز نے دونوں کو مار ڈالا۔ اسرائیلی بلڈوزر مغربی کنارے میں مکانات گرا رہے ہیں۔ انہیں مزید زمین چاہیے، اسے زرخیز بنانے کیلئے مزید خون بھی۔ آدھے سے زیادہ مغربی کنارہ پہلے ہی یہودی آباد کاروں نے ہتھیا لیا ہے۔ آدھے سے جو کم رہ گیا ہے، اب اس کی باری ہے۔ اسرائیلی کابینہ نے منظوری دے دی ہے کہ مغربی کنارے سے مزید زمین لی جائے گی۔ 
عالمی عدالت فوجداری نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔ وارنٹ دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک ناقابل ضمانت ، دوسرے ناقابل عمل۔ یہ وارنٹ اس دوسری قسم کا ہے۔ امریکہ سخت ناراض ہے۔ نیتن یاہو معصوم ہے، اس نے کچھ کیا ہی نہیں تو پھر وارنٹ کیوں، ہم عالمی عدالت کو سزا دیں گے۔ 
سرزمین حجاز مقدس میں پہلے نائٹ کلب کا افتتاح ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے حجاز ہی کے ایک ساحلی جزیرے میں فیشن پریڈ ہوئی، کیٹ واک، ایسی بولڈ کیٹ واک کہ فرانس کا جنوبی ساحل یاد آ گیا۔ یہ گلوبلائزیشن ہے۔ فرانس حجاز ایک ہو گئے، اور اس گلوبلائزیشن میں غزہ والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں، کوئی گنجائش نہیں۔ ان کے بچے یہ پوچھتے پوچھتے مر جائیں گے کہ ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے۔ ہمارا قصور کیا ہے، ہم نے کیا غلطی کی ہے۔ ان بچوں کو اس سوال کا جواب اس دنیا میں نہیں مل سکتا۔ کچھ دن بعد دوسروں کی طرح وہ بھی اوپر چلے جائیں گے، وہاں تو جواب مل ہی جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن