بھارت میں بنگلہ دیش کے رکن اسمبلی کے بہیمانہ قتل کی واردات یہ ثابت کرتی ہے کہ وہاں امن و امان کی صورت حال کس حد تک خراب ہے۔ بھارت میں بیٹھ کر جرائم پیشہ افراد بیرون ملک کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ بھارت میں جرم کی دنیا سے جڑے افراد جیلوں میں بیٹھ کر یا پھر بیرون ملک سے مجرمانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرتے ہیں، اغوا ء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، منشیات فروشی سمیت بڑے بڑے جرائم میں بھارت کے انڈر ورلڈ گینگ شامل ہیں ۔ گینگ وار میں الگ جانی نقصان ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اتنے مضبوط ہیں کہ بڑے بڑے کاروباری افراد ان کے سامنے بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں ۔ بالی وڈ پر انڈر ورلڈ کا کنٹرول ہے ۔ بھارت اپنا پرامن چہرہ دنیا کو دکھانے کے لیے بہت سرمایہ خرچ کرتا ہے لیکن انڈر ورلڈ کی کارروائیاں اور بھارتی حکومت کی ہندوتوا پالیسی اور توسیع پسندانہ عزائم متعصب اور تنگ نظر بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔ اب تو بھارت سرحد پار بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے ۔ یہاں تک کہ کینیڈا میں سکھ رہنما کو قتل کر دیا گیا۔ جب کہ امریکہ میں مقیم سکھوں پر بھی قاتلانہ حملے ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ بھارتی حکومت کی سرپرستی یا معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے تو براہ راست بھارتی حکومت پر الزامات عائد کیے ہیں۔ بھارت ہر وقت پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کے لیے سازشیں کرتا رہتا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی صاف دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کے دہشت گرد دنیا کے مختلف ممالک میں کارروائیاں کر رہے ہیں خون بہا رہے ہیں اور اندرونی طور پر بھی نریندرا مودی کی حکومت میں صرف متعصب ہندو ہی خوش ہیں۔ بھارت کے دہشت گرد پاکستان میں گرفتار ہوئے، انہوں نے جرم کا اعتراف کیا، پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے حقائق رکھے ، شواہد پیش کیے لیکن آج تک عالمی طاقتوں نے اس اہم ترین مسئلے پر پاکستان کا ساتھ نہیں دیا ۔ اب بھارتی دہشتگردی امریکہ اور کینیڈا تک پھیل چکی ہے دیکھنا یہ کہ دیگر ممالک کب اس کی لپیٹ میں آتے ہیں اور کب بڑے ممالک کی آنکھوں سے کاروبار اور تجارتی مفادات کی پٹی اترے گی۔
گذشتہ دنوں بھارت میں بنگلہ دیش کے رکن اسمبلی انوار العظیم انور کو مبینہ طور پر کولکتہ میں قتل کر دیا گیا۔ انور العظیم کو اس بے رحمی سے قتل کیا گیا کہ ان کے جسم سے کھال بھی اتار دی گئی اور ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے شہر کے مختلف علاقوں میں پھینکا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ قتل کا ملزم جہاد حوالدار ایک پیشہ ور قصائی اور بنگلادیش کے علاقے برکپور کا رہائشی ہے۔ یہ پیشہ ور قصائی ممبئی میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تھا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دوران تفتیش جہاد حوالدار نے رکن اسمبلی کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس واردات میں مزید چار بنگلہ دیشی بھی شامل ہیں۔ حکام کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا قتل کے بعد لاش کی شناخت چھپانے کے لیے جسم سے کھال اتاری اور لاش کے کئی ٹکڑے کیے جنہیں پلاسٹک کے پیکٹس میں ڈال کر شہر کے مختلف علاقوں میں پھینکا گیا۔ قتل کی اس بہیمانہ واردات میں تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا تاہم ابھی لاش برآمد کرنا باقی ہے۔ کیا بھارتی حکومت سو رہی ہے، نہ بھارت میں رہنے والے محفوظ ہیں نہ بھارت سے باہر رہنے والے بھارتیوں کی شرپسندی سے بچ سکتے ہیں۔ کیا عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں کو دہشت گردی کی یہ کارروائیاں دکھائی نہیں دے رہیں۔
خبر یہ بھی ہے کہ لندن کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طالب علموں کو گرفتار کیا گیا ۔یہ اس ملک میں ہوا ہے جہاں آزادی اظہار رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، جہاں آپکو لکھنے بولنے کے حوالے سے مکمل آزادی میسر ہے پھر کیوں فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلبا نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اسرائیل سے تمام مالی معاونت ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب آکسفورڈ یونیورسٹی کے طلبا اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پولیس طلب کر لی گئی۔ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں پولیس نے سولہ طلبا کو گرفتار کر لیا گیا۔
دی آکسفورڈ ایکشن فار پیلیسٹائین کے مطابق یہ بات ظاہر ہے کہ "یونیورسٹی اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے قتل عام میں حصہ ڈالنے پر نظر ثانی کے بجائے اپنے طلبا کو گرفتار کرنے اور انہیں خاموش کرانے کو ترجیح دے رہی ہے۔"
درحقیقت مغرب کے یہی دو رخ ہیں جہاں ان کی اپنی ضرورت ہوتی ہے وہاں انسانی حقوق کی آواز بھی بلند ہوتی ہے وہاں آزادی اظہار رائے کا بھی نام لیا جاتا ہے، وہی احتجاج کو بنیادی حق بھی کہا جاتا ہے لیکن جہاں ان کے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچتا ہو وہاں بے دریغ طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے، تمام حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔ یہی سب کچھ آکسفورڈ یونیورسٹی ہے طلبا کے ساتھ ہوا ہے۔ مغرب کا یہی رویہ بھارت کی پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنے کی کارروائیوں پر بھی ہے۔ سو یہ بات طے ہے کہ سب ملے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔
یہ یاد رکھیں کہ امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور دنیا بھر کی جامعات میں فلسطینیوں کے حق میں اور غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والے مظاہرے جن میں سے کچھ احتجاجی مظاہروں کو ختم کرنے لیے جامعات کی انتظامیہ نے پولیس کو طلب کیا۔ امریکی جامعات میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں کم و پیش ایک ہزار طلبا کو گرفتار کیا گیا۔ کیا امریکہ میں ہونے والے مظاہروں پر ریاست کی سختی اور گرفتاریاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔ یا صرف پاکستان میں اگر ایسا کچھ ہو تو اسے انسانی حقوق کہ خلاف ورزی کہا جائے گا۔
آخر میں تیمور حسن کا کلام
تْجھے زندگی کا شعور تھا، ترا کیا بنا؟
تْو خاموش کیوں ہے مجھے بتا، ترا کیا بنا؟
نئی منزلوں کی تلاش تھی سو بچھڑ گئے
مَیں بچھڑ کے تجھ سے بھٹک گیا، ترا کیا بنا؟
مْجھے عِلم تھا کہ شِکست میرا نصیب ہے
تْو امیدوار تھا جیت کا، ترا کیا بنا؟
مَیں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لئے
کوئی آ کے مجھ سے یہ پوچھتا تیرا کیا بنا؟
جو نصیب سے مِری جنگ تھی وہ تری بھی تھی
میں تو کامیاب نہ ہو سکا، تِرا کیا بنا؟
تجھے دیکھ کر تو مجھے لگا تھا کہ خوش ہے تْو
تِرے بولنے سے پتہ چلا، تِرا کیا بنا ؟
میں الگ تھا اوروں سے اس لیے یہ سزا ملی
تْو بھی دوسروں سے تھا کچھ جْدا، تِرا کیا بنا ؟؟
بھارت میں بنگلہ دیشی رکن اسمبلی کا قتل اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے گرفتار طلباء
May 25, 2024