پاکستان ٹیم آئر لینڈ کے خلاف بھی ایک میچ ہاری، جن دو میچوں میں کامیابی ملی ان میں بھی کرکٹ بہت اچھی نہیں کھیلی لیکن پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کی گفتگو سنی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے یہ سیریز دنیا کی بہترین ٹیم کے خلاف جیتی ہے۔ حتی کہ ٹیم کے کپتان بابر اعظم ایک سے زیادہ مرتبہ آئر لینڈ کے خلاف تیز بیٹنگ کی مثال دے چکے ہیں۔ اگر پاکستان ٹیم فل سٹرینتھ کے ساتھ نسبتا کمزور ٹیم کے خلاف کامیابی پر خوشیاں منا رہی ہے تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخر ہماری کرکٹ کا معیار کیا ہو گیا ہے۔ یہ مقام فکر ہے کہ پاکستان ٹیم کا کپتان یہ کہے کہ پہلا میچ ہارنے کے بعد ہم نے ڈسکشن کی، پلان بنایا، پھر تیزی سے رنز بنائے اور کامیاب بھی ہوئے۔ ایسی باتیں عماد وسیم نے بھی کیں ایک طرف وہ انگلینڈ کے خلاف بغیر کسی دباؤ کے میدان میں اترنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف آئر لینڈ کے خلاف میزبان ٹیم کے فیلڈرز کی طرف سے گرائے گئے کیچز کی بدولت ملنے والی فتح کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال افسوسناک ہے یعنی قوم کو آئر لینڈ جیسی نسبتا کمزور ٹیموں کے خلاف کامیابی کا جشن منانے کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
اب نہیں تو کب، بابر اعظم کی کپتانی پر شکوک و شبہات برقرار پیں، کیا بابر اعظم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے یا نہیں، کیا کپتانی کرتے ہوئے وہ کچھ دلیرانہ فیصلے کریں گے یا ماضی کی طرح ان کے کمزور فیصلوں کی وجہ سے پاکستان ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بابر اعظم کی قومی ٹیم میں سلیکشن کے حوالے سے رائے پر تو خاصی تنقید ہو رہی ہے انہوں نے حسن علی کی سلیکشن پر جواب بھی دیا ہے لیکن محمد عامر، حسن علی کی ٹیم میں شمولیت اور آئر لینڈ، انگلینڈ کے خلاف اسامہ میر کے ڈراپ ہونے پر ماہرین انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے ہے۔ "جادوگر لیگ سپنر عبدالقادر کے صاحبزادے عثمان قادر بھی سلیکشن پالیسی پر پھٹ پڑے، کہتے ہیں "ہائیڈ اینڈ سی" چل رہا ہے، کوئی کسی کو چھپا رہا ہے تو کوئی کسی کو، میچز ملتے نہیں اور سوالات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، کس کو پوچھوں کہ کیا ہوا ہے، بابر اعظم سے دوستی کی وجہ سے کرکٹ کھیل رہا ہوتا تو میں سب سے پہلے ٹیم کا حصہ بنتا، یہ بات چھوڑ دیں بہت دور چلی جائے گی، مجھے کبھی مسلسل میچز نہیں ملے، مین آف دی میچ لیتا ہوں باہر بٹھا دیا جاتا ہے، اچھی باولنگ کرتا ہوں دوبارہ باؤلنگ نہیں دی جاتی، فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی یہی حالات تھے، قومی ٹیم میں ایسے مسائل کا سامنا تھا۔ کیا کر رہے ہو بھائی، اسامہ میر کو کیسے ڈراپ کر دیا ہے، برسوں سے کرکٹ بورڈ میں بیٹھے افراد کا رویہ بھی عجیب ہے، ہر کوئی الزام لگاتا ہے، طعنے دیتا ہے لیکن حقیقت سے کوئی واقف نہیں، ڈاکٹر نجیب سومرو ایسا ڈاکٹر تھا وہ اپنے بخار کی دوا بھی کسی سے لیتا تھا، میں انجرڈ ہوا اگر مناسب دیکھ بھال نہیں ہوئی تو کسے بتاؤں، یہاں کون سننے والا ہے، کس سے ہوچھیں کیا ہو رہا ہے، اسامہ میر کو ڈراپ کرنے کی سمجھ نہیں آتی، میں اکیلا فل ٹاس نہیں کرتا دنیا کے تمام لیگ سپنرز ایسی گیند بازی کرتے ہیں۔ عثمان قادر کہتے ہیں اس مرتبہ بابر اعظم کو بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے۔ بابر اعظم کے لیے نیک خواہشات ہیں وہ ورلڈکپ میں بہت رنز سکور کریں، ان سے بہت امیدیں ہیں۔ پاکستان ٹیم کے لیے بہت دعائیں ہیں۔ جو پلیئرز منتخب ہوئے ہیں وہ ملک کا جھنڈا بلند کریں، سبز ہلالی پرچم بلند رکھیں، ملک و قوم کا نام روشن کریں، کھلاڑیوں کو اچھی کرکٹ کھیلنا ہو گی پاکستان کے لوگ کرکٹ کے لیے بہت جذباتی ہیں ان کے جذبات سے نہ کھیلیں۔"
پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں ورلڈکپ سے قبل مختلف تبدیلیوں کی وجہ سے تیاریاں متاثر ہوئی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم میں اتحاد کی فضا کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ صرف پانچ میچوں میں کپتانی کے بعد شاہین آفریدی جیسے کھلاڑی سے کپتانی واپس لینا دانشمندانہ فیصلہ ہرگز نہیں، وہ پاکستان کی پیس بیٹری کا لیڈر ہے۔ اس کے ذہن پر کپتانی واپس لیے جانے کے شدید اثرات ہو سکتے ہیں اور یہ ممکن ہے کسی بھی بہترین کھلاڑی کے ساتھ ایسا رویہ اس کا اعتماد خراب کر سکتا ہے۔ ہمیں اس سے بہتر تیاریوں کے ساتھ ورلڈکپ کی طرف جانا چاہیے تھا اور ہم جا سکتے تھے لیکن ہم نے ٹیم میں توڑ پھوڑ اور اکھاڑ پچھاڑ کو اہمیت دی۔ آئر لینڈ کے خلاف تین میچز کے بعد انگلینڈ میں پہلا میچ بارش کی نذر ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیریز کے باقی ماندہ تین میچوں میں قومی ٹیم کس حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترتی ہے۔ حسن علی کو کاونٹی کرکٹ کے لیے سکواڈ سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ انہیں آئر لینڈ کے خلاف جس میچ میں کھلایا گیا وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے۔ حارث رؤف کی مشکوک فٹنس کی وجہ سے حسن علی سکواڈ کا حصہ بنے تھے۔