بدقسمتی سے تمباکو کا استعمال پاکستان میں قیمتی جانوں کے نقصان کا سبب بن رہا ہے، ایسی جانیں جنہیں بچایا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 1 لاکھ 60 ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
صحت پر پڑنے والا منفی اثر اپنی جگہ مگر سگریٹ کے استعمال سے قوم کی جیب پر بھی بھاری بوجھ پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس عادت میں ملوث افراد کی صلاحیتیں بھی ماند پڑتی جارہی ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں صحت کی سہولیات ویسے ہی کم ہیں وہاں تمباکو نوشی کی وجہ سے نظام پر سنگین بیماریوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے، اور پھیپھڑوں کے کینسر، دل کی بیماریوں اور سانس کی بیماریاں اب عام ہوتی جارہی ہیں۔
اس پوری صورتحال سے نمٹنے کے لیے بے انتہا اخراجات ہورہے ہیں اور اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تمباکو کے استعمال کی وجہ سے ملک میں بیماریوں کے ساتھ ساتھ توانائی میں کمی اور قبل از وقت موت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کے سبب نہ صرف اس کے استعمال کرنے والوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ مجموعی طور پر ملک کی معیشت پر بھی اس کے انتہائی مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ایسے خاندان جو پہلے ہی معاشی طور پر پریشان ہیں، وہ تمباکو نوشی کی عادت کے سبب جنم لینے والی بیماریوں کے اخراجات کے سبب مزید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔
تمباکو نوشی کی وجہ سے مسائل کی طویل فہرست سے جس پر جتنی بات کی جائے، کم ہے۔ اب تک ہم معاشی اور جانی نقصان پر بات کرچکے ہیں لیکن اس کے دیگر مسائل بھی ہیں، جیسے ماحولیاتی اور فضائی آلودگی، درختوں کی کٹائیاور سگریٹ کے بقایہ جات کی صورت میں بے انتہا کوڑا۔
تمباکو نوشی معاشرے میں اقتصادی فرق کا سبب بھی بن رہا ہے کیونکہ ایسے افراد جو پہلے ہی معاشی طور پر کمزور ہیں ان کی آمدنیوں میں سگریٹ نوشی کے سبب اضافی بوجھ لاگو ہوجاتا ہے اور یہی وہ بوجھ ہے جو بہت سارے دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔
متعدد تحقیق نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اگر سگریٹ کی قیمت میں اضافہ کردیا جائے تو معاشرے کو اس لعنت سے بچایا جاسکتا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کرکے اس عادت میں مبتلا افراد کو اس بات پر مجبور کیا جاسکتا ہے کہ یا تو وہ مکمل طور پر سیگریٹ نوشی سے توبہ کرلیں یا کم از کم اس کے استعمال میں کمی لے آئیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ جو فرد سگریٹ پینا چھوڑ دیتا ہے تو وہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق امیر ممالک میں سگریٹ کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافے سے اس کے استعمال میں 4 فیصد کمی دیکھی گئی ہے جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں 8 فیصد لوگوں نے سیگریٹ نوشی سے منہ موڑ لیا ہے۔
آڈٹ اور ٹیکس جیسے امور پر کام کرنے والی کمپنی ڈی لوئٹ کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں بتایا گیا ہے کہ جن مملک نے سگریٹ پر ٹیکس کی شرح بڑھائی ہے وہاں اس کے استعمال میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا نے سگریٹ پر ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں حالیہ دہائی میں سیگریٹ کے استعمال میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
اسی طرح برطانیہ میں بھی تمباکو کی اشیا پر ٹیکس اور قیموں میں اضافہ صحت عامہ کی حکمت عملی کا ایک اہم جز ہے اور اسی پالیسی کی وجہ سے اس کے استعمال میں کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے ایک اور سروے کے مطابق پاکستان میں سگریٹ کے استعمال میں 18 فیصد کمی ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔ سروے کے مطابق 15 فیصد افراد نے واضح طور پر سیگریٹ چھوڑنے کی وجہ مہنگی ہوتی قیمتوں کو بتایا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سیگریٹ کے استعمال میں سالانہ 11 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ ایک مسئلہ اب بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان عالمی سطح پر سب سے سستی سگریٹ بنانے والا ملک ہے اور یہ بات اس بات پر مزید زور بڑھانے پر مجبور کرتی ہے کہ سگریٹ پر عائد ٹیکس کی شرح میں مزید 50 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ 2023 میں سستی اور مہنگی سیگریٹ پر ایف ای ڈی ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے مگر اس کے باوجود خطے کے دیگر مملک بشمول بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان میں سیگریٹ سستی قیمت میں میسر ہے۔
پاکستان میں مہنگی سگریٹ کا ایک ڈبہ اب بھی ڈیڑھ ڈالر کا مل جاتا ہے جبکہ پڑوسی ممالک میں اس کی قیمت 3 ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
چونکہ بجٹ پیش ہونے والا ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ سگریٹ پر مزید50 فیصد تک ٹیکس بڑھانے سے متعلق غور کرے۔ اس اقدام سے نہ صرف پاکستان کو مالی طور پر فائدہ ہوگا بلکہ تمباکو نوشی میں کمی کے سبب بیماریوں کی شرح میں بھی کمی ممکن ہوسکے گی۔
٭٭٭٭
تمباکو نوشی کے رجحان میں کمی کے لئے مہنگی سگریٹ واحد حل
May 25, 2024