اتوار ‘ 10 محرم الحرام ‘ 1434ھ 25 نومبر2012 ئ


قتل گاہوں کو لہودیتے رہیں گے اہلِ دل
کارواں چلتے رہیں گے کربلا تا کربلا
 کربلا کی لوح پر رقم ہونیوالی کہانی تاریخ کا وہ درخشندہ باب ہے جو تاقیامت اسی آب و تاب کیساتھ لکھی جاتی رہے گی،حسینیت حق و صداقت کا علم تھامے یزیدیت کے سینے پر مونگ دلتی رہیگی امام عالی مقام اور فرزند بتول نے اپنے نانا کی تعلیمات سے کسب فیض عام کرتے ہوئے زندگی کا قرینہ اور موت کا سلیقہ سکھایا،چراغ مصطفویٰ اور شراربو لہبی کی یہ کشمکش اس طرح جاری رہے گی ۔شام غریباں کے نوحے یونہی نئی صبحوں کے افق پر دستکیں دیتے رہیں گے اور وقت کی فرعونی قوتوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے اور اپنی جانوں کی قربانی دینے کا جذبہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
کربلا میں کوفیوں نے پانی بند کرکے خانوادہ¿ رسول کو پیاسا رکھا،آج موٹر سائیکل اور فون بند کرکے حکومت پاکستان کس کے نقش قدم پر چل رہی ہے ،اب موٹر سائیکل بند کیے کل کو سائیکل بھی بند کردیں گے پھر پیدل چلنے پر بھی پابندی عائد کردینگے۔حکمت سے نابلد، مصلحت سے ناآشنا، زمانہ سازی سے بے بہرہ غیروں کی چوکھٹ پر جبین ٹیکنے اور کھوکھلے دعوے کرنیوالے نہ جانے کب اپنے فرائض منصبی کو پورا کرینگے۔
٭....٭....٭....٭
 امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے پیش نظرڈی ایٹ کانفرنس کے اصل نتائج سامنے نہیں آسکے۔
کیامحرم الحرام کے پہلے عشرے میں ہی اتنی اہم کانفرنس کا انعقاد کرنا لازمی تھا؟ کراچی میں گرتی لاشوں اور جڑواں شہر کے ڈھوک سیداں میں رقصِ ابلیس جاری تھا، کوئٹہ میں خون بہہ رہا تھا ان حالات میں ڈی ایٹ کانفرنس کے مہمانوں کو بلا کر ان پر خوف مسلط کرنا تو کہیں مقصد نہیں تھا، وزیراعظم کانفرنس میں شامل نہیںہوئے انکی نمائندگی بلاول بھٹو اور بختاور بھٹو نے کی۔
 لگتا ہے یہ کانفرنس کم اور بلاول کو بیرونی لوگوں سے متعارف کروانے کی تقریب کے طورپر زیادہ فائدہ مند ثابت ہوئی۔ملکی حالات دیکھتے ہوئے محرم کے پہلے دس ایام میں کانفرنس کی تاریخ دیکھ کر پاکستان کا دنیا میں اچھا امیج پیش کرنے کا موقع گنوادیا گیا۔گزارش ہے کہ جناب آئندہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیے آج کے ملکی حالات کے پیشِ نظر تو کانفرنس کا ”ککھ“ فائدہ نہیںہوا۔
٭....٭....٭....٭
 برطانیہ میں غیر قانونی طورپر مقیم تارکین وطن کو عام معافی مل گئی۔
 ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانی ” لُڈیاں“ ڈال رہے ہونگے، بہرحال بہت ساروں کی لاٹریاں نکل آئی ہیں،انہیں چاہئے کہ پاکستان کے نام کو روشن کریں اور معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے زیادہ زرمبادلہ بھیجیں، پاکستانی غیر قانونی کام تو بہت کرتے ہیں۔بیچارے کیا کریں جب حکمران طبقہ خود قانون کو توڑے گا تو عوام اس سے دوچار قدم آگے چھلانگ لگائیں گے یہاں کوئی تانگہ پارٹی بناکر وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنا شروع ہوجاتا ہے ،کوئی بیساکھیوں کے سہارے بھی ”ڈانس“ کرنے سے باز نہیں آتا، غیر قانونی کو قانونی بنانے کیلئے آج کل پاکستان میں بھی خوب لے دے ہورہی ہے، کرپشن کو تحفظ دینے کیلئے قومی احتساب بل لایاجارہا ہے،اسکے پاس ہوتے ہی کرپشن کرنے والوںکو بھی ایسے ہی معافی مل جائیگی جیسے برطانیہ میں تارکین وطن کو ملی ہے،دیکھیں ایم کیو ایم اور (ق) لیگ والے قوم کیساتھ ملکر اس بل پر ”بغاوت“ کرتے ہیں یا پھر....ع
”وِچوںوِچی کھائی جاﺅ اُتو ں رُولا پائی جاﺅ“
کے فارمولے کے تحت اپنی کارکردگی دکھاتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
 ہم نے اپنے دور میں جنوبی پنجاب میں جتنے ترقیاتی کام کروائے اسکی مثال نہیں ملتی:چوہدری پرویز الٰہی
جناب! ” کُبے نوں لت راس آگئی “والی بات ہے ،پرویز مشرف کا دور آپکو بھی راس آ گیا ہے۔غالب نے کہا تھا....
” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی“
 ہر کام میں کمشن کا چسکا جب پڑ جائے تو پھر غالب کی بات سچ لگتی ہے کوئی بھی چیز منہ کو لگ جائے خواہ وہ کالے چنے ہی کیوں نہ ہوں جب تک آدمی وہ منہ سے لگا نہ لے تب تلک چسکا پورا نہیں ہوتا۔پرویز الٰہی کے دور میں منی مارکیٹ گلبرگ لاہور کے قریب ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ زمین پر قبضہ ہوا پھر کھدائی کی گئی،بنیادیں رکھی گئیں لیکن آج وہاں پر سریئے ایسے نظر آرہے ہیں جیسے فقیروں کی جھونپڑیوں میں ڈنڈے لگے ہوتے ہیں،اصل میں گھپلے والا کام تھا ہر کسی نے اپنا اپنا ”اُلو“ سیدھا کیا اور رفوچکر ہوگئے سابق چیف سیکرٹری پنجاب کی مہربانی اس میں شامل تھی....ع
”مجھے سب ہے یاد،ذرا ذرا،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“
٭....٭....٭....٭
ملالہ کے والد کو برمنگھم میں پاکستانی قونصلیٹ میں ملازمت دینے کا فیصلہ‘ قونصلر یا سینئر ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جا سکتا ہے۔
ویسے بڑے وثوق والے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ملالہ اپنے خاندان کے ساتھ جلد واپس آجائے گی لیکن ضیاءالدین نے برمنگھم اتر کر عہدہ قبول کرلیا ہے۔ جہاں ان کی برطانیہ میں ملازمت بہرحال پاکستانی ہائی کمشن میں ہوئی،وہاں پاکستانی عوام قوم کی بیٹی کی وطن واپسی کی منتظر تھی اور یقینا یہ خبر سن کر مایوس ہوگی۔ یہ درست ہے کوئی بھی والد اپنی بیٹی کی حفاظت اور اسکے روشن مستقبل کو اوّل ترجیح دینے میں صرف حق ہی ادا کر رہا ہے لیکن کاش کہ ضیاءالدین کو یہ ضمانت پاکستان فراہم کرسکتا۔
 افسوسناک بات ہے کہ ملالہ کو پاکستان میں محفوظ تصور نہیں کیاجاسکتا۔یہ سازش نہیں، بچی کے سرمیںبرآمد ہونے والی گولی جتنی سخت اور تلخ حقیقت ہے ۔پاک سرزمین کو مت بھولنا کیونکہ آپ کی رگوں میں یہی خون گردش کر رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن