ڈیرہ اسماعیل خان/لاہور (نامہ نگار+نوائے وقت نیوز+خصوصی رپورٹر) ڈیرہ اسماعیل خان میں امام بارگاہ کے قریب دھماکے سے 6 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ 12 بچوں، ایک پولیس اہلکار سمیت 30 افراد زخمی ہو گئے۔ حکومت کی جانب سے سکیورٹی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دھماکہ ڈی آئی خان کے نواحی علاقے بنوں چونگی کے قریب واقع امام بارگاہ کے نزدیک ہوا۔ پولیس کے مطابق دھماکہ خیز مواد کچرے کے ڈھیر میں نصب کیا گیا تھا۔ تمام تر سکیورٹی کے باوجود دہشت گرد ڈی آئی خان میں کامیاب ہوگئے۔ نویں محرم کے سلسلے میں نکالا جانیوالا ماتمی جلوس اپنے روایتی راستوں سے ہوتا ہوا بڑے جلوس میں شامل ہونے کیلئے جیسے ہی تھویا فاضل کے قریب پہنچا تو زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکے کی آواز دور دور تک سنائی دی۔ دھماکے میں جاں بحق اور زخمی ہونیوالوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا دیا گیا۔ 4 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکہ دیسی ساخت کے ریموٹ کنٹرول بم کے ذریعے کیا گیا۔ دہشت گردی میں 8 سے 10 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دھماکے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ جائے وقوعہ سے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بعد شہر میں فوج طلب کر لی گئی۔ صدر آصف زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف، وزےراعلیٰ پنجاب شہباز شرےف، الطاف حسین، اسفند یار ولی، جے یو آف ف کے رہنما¶ں مولانا فضل الرحمن، مولانا عبدالغفور حیدری، جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، لیاقت بلوچ، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے آئی جی خیبر پی کے سے دہشت گردی کے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے امیر حیدر ہوتی نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ ڈی آئی جی بنوں قاضی جمیل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ کیا گیا دھماکہ کےلئے پریشر ککر استعمال کیا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ چھوٹا جلوس تھا جو بڑے جلوس میں شامل ہونے کےلئے جا رہا تھا۔ واقعہ کے بعد سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے ڈی آئی جی ڈیرہ اسماعیل خان کو فون کیا اور انہیں جلوسوں کی سکیورٹی فول پروف بنانے کی ہدایت کی۔ دھماکے کے بعد تمام شہر کو سیل کر دیا گیا۔ شہر میں کرفیو کا سماں ہے، 3500 پولیس اہلکاروں کے علاوہ ایف سی اور پاک فوج کے دستے گشت کر رہے ہیں۔ 6 زخمیوں کو ملتان ریفر کر دیا گیا ہے۔ 4 کی حالت تشویشناک ہے۔ دریں اثناءکالعدم تحریک طالبان نے ڈی آئی خان میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اہل تشیع پر حملہ ہم نے کیا اور ملک بھر میں خودکش حملوں کیلئے 20 سے 25 خودکش حملہ آور بھیج دئیے ہیں۔ حکومت جتنے مرضی انتظامات کر لے ہمارے حملے نہیں رُک سکتے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی، وفاقی وزراءقمرالزماں کائرہ، چودھری احمد مختار، فاروق ستار نے بھی بم دھماکے کی مذمت کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا امن تباہ کرنے اور معصوم انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ دہشت گرد انسانیت کے دشمن اور پاکستان کی ترقی اور امن کے درپے ہیں۔ انہوں نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دینی جماعتوں اور مختلف مسالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ متحد ہو کر سازشیں ناکام بنا دیں۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ وزیر داخلہ بتائیں کہ موبائل فون جام اور موٹرسائیکل پر پابندی سے کیا حاصل ہوا۔ پولیس ذرائع نے بی بی سی بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ تھویا فاضل کے علاقے میں ہونے والے دھماکے میں 6 بچے جاں بحق ہوئے۔ تمام بچوں کی عمریں 7 سے 14 سال ہیں۔ جاں بحق ہونے والے بچوں میں سے دو بھائی طلحہ نواز اور محمد صادق شامل ہیں جن کا تعلق اہلسنت سے تھا اور وہ صرف سڑک پر کھڑے عزاداروں کو دیکھ رہے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے مرکزی پولیس کنٹرول روم سے سب انسپکٹر محمد حنیف نے بتایا کہ یہ دھماکہ کسی جلوس کے قریب نہیں ہوا بلکہ اس وقت ہوا جب کچھ لوگ اکٹھے ہو کر مرکزی جلوس میں شرکت کیلئے جا رہے تھے۔ ان کے مطابق دھماکے کیلئے پریشر ککر استعمال کیا گیا۔ زخمی ہونے والوں میں پولیس کا ایک اہلکار بھی شامل ہے۔ ملتان سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق نشتر ہسپتال میں دو زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ڈی آئی خان میں موبائل سروس بند نہ کرنے کی رپورٹ مل گئی ہے۔ موبائل سروس بحال رہنے سے ہی یہ دھماکہ ہوا، تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ دو میل کے علاقے میں موبائل سروس بند نہیں تھی۔ موبائل فون سروس بند نہ کرنے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کر دی ہے۔ رحیم یار خان سے کرائم رپورٹر کے مطابق امام بارگاہ یادگار حسین میں بم کی اطلاع، ڈی پی او سمیت بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ جدید آلات کے ساتھ چیکنگ کے بعد اطلاع کو افواہ قرار دیدیا گیا۔ نوشہرہ میں نامعلوم شدت پسندوں نے پولیس لائن پر حملہ کیا اور جوابی کارروائی پر شدت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس ہائی الرٹ تھی۔ ایلیٹ فورس کے جوانوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے شدت پسندوں کو سنبھلنے نہیں دیا۔ پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے لکی مروت میں بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے شبے میں 7 افراد کو گرفتار کر لیا۔ انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر اور اے این پی کے رہنما بشیر بلور نے کہا ہے کہ صحیح انتظامات کئے جاتے تو دہشت گرد مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہوتے۔ ٹا¶ن انتظامیہ کو شہر کی صفائی کیلئے 5 لاکھ روپے ادا کئے تھے۔ سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کیخلاف متحد ہو جائیں جو جماعت آواز نہیں اُٹھاتی اس کا مطلب ہے کہ وہ ان سے ملی ہوئی ہے یا ڈرتی ہے۔