حضرت امام حسینؓ

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنج شنبہ کے دن حضرت امام حسینؓ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے‘ بیٹے کو گود میں لیا‘ داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دیدی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسینؓ کی غذا بنا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر آنے والے حالات کا علم پیغمبر کی آنکھوں میں آنسو برساتا تھا۔
پیغمبر اسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبر’اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت علیؓ ابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہراؓ جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لئے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسینؓ کی پرورش ہوئی۔
حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سینہ پر بٹھاتے تھے۔ کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔ مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے۔ ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت مبارک پر آگئے تو سجدہ میں طول دیا۔ یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہو گیا۔ اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کر دیا منبر سے اتر کر بچے کو زمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ”دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو“ رسول نے حسین کے لئے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ ”حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں“ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رہے گا۔
امام حسینؓ کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اب پچیس برس تک حضرت علیؓ ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کا دور ہے۔ اس زمانہ میں امام حسین اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا مطالعہ فرماتے رہے۔ یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھرپور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔ 35ھ میں جب حسین کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا۔ یہ امیرالمومنین کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں اور امام حسینؓ ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے 40ھ میں حضرت علی مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت و خلافت کی ذمہ داریاں امام حسن کے سپرد ہوئیں۔ امام حسینؓ نے ایک باوفا اور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن کاساتھ دیااور جب امام حسن نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہؓ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسینؓ بھی اس مصلحت پر راضی ہو گئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم و اشاعت میں مصروف رہے۔
یزید کو ولی عہد بنا دیا گیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
محمد ابن جریر طبری‘ ابن خلدون‘ ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نے لکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالت کو کربلا میں قتل کیا اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نے امام حسینؓ کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے توہین اور تعصب پر مبنی کچھ اشعار پڑھے۔
 جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے: شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو‘ ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کا انتقام لے لیا‘ بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئی نہ کوئی فرشتہ آیا ہے۔
حضرت امام حسینؓ نے اپنا سر دے کر اپنے نانا کے دین کا پرچم قیامت تک کے لئے بلند کر دیا۔ علامہ اقبال نے شہادت امام عالی مقام پر جو کہا اس کی صداقت آج بہمارے سامنے ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ای پیپر دی نیشن