شنیدہ کے شود مانند دیدہ

میرا مقصد قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں آج کل چھپنے والی سنی سنائی باتوں کو آنکھوں دیکھے حالات کے مقابل کرنا ہے لیکن فی الحال راقم قارئین کو راجہ مقبول حسین جنجوعہ صاحب کی لکھی کتاب کے بارہ میں بتائے گا جو میرے ایک مہربان دوست نے تحفہ میں دی ہے۔ کتاب کا نام ”آﺅ مدینے چلیں“ ہے۔ اور کتاب کے ٹائٹل کور پر اندرونی پہلے صفحہ پر لکھا ہے کہ حضرت مولانا روم کا مزار مبارک استنبول میں واقع ہے ۔ جہاں معتقد لوگ صبح و شام زیارت کرتے اور دعائیں مرادیں مانگتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مولانا روم کا مزار مبارک استنبول میں واقع نہیں ہے بلکہ استنبول کے جنوب مشرق میں ایک شہر قونیا میں واقع ہے۔ جو آج ملک ترکی کا ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔ راقم یہ بات اس یقین کے ساتھ بتا رہا ہے کہ 1969ءمیں حج کی ادائیگی کے بعد راقم اور بیگم صاحبہ ”قل سیرو فی الارض“ (ترجمہ) زمین کو گھوم پھر کر دیکھو (سورہ آل عمران آیت 137) کے حکم کے مطابق ملک ترکی کی سیر پر چل پڑے اور براستہ دمشق سب سے پہلے شہر استنبول پہنچے جس کا پرانا نام قسطنطنیہ سلطان محمد کے ہاتھوں 1453ءمیں فتح ہوا۔ اس لئے خلیفہ کا نام تاریخ میں سلطان فاتح محمد مشہور ہے۔ واضح رہے کہ اس کے متعلق ایک حدیث مشہور ہے کہ جو مجاہدین شہر قسطنطنیہ کو فتح کریں گے ان کے لئے جنت کی بشارت دی گئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سلطان محمد نے یہ شہر توپ کی مدد سے فتح کیا اور ایک توپ جس کے ساتھ اس شہر کو فتح کیا گیا دوران سفر اس توپ کی حفاظت ایک کیولری بریگیڈ کرتا تھا۔ واضح رہے کہ توپ خانہ کو فوجی ہتھیار کے طور پر استعال ترکوں نے شروع کیا اور توپ خانہ پر علم و فن کو ہسپانیہ کے مسلمانوں سے حاصل کر کے پورے عالم اسلام میں رائج کر دیا جس کی تفصیل راقم کی کتاب (Gun and Politics)میں درج ہے۔ اور ترکی کو قدیم اسلامی زبانوں میں ملک روم کہا جاتا ہے اس لئے ملک روم یعنی آج کل کے ملک ترکی سے درآمد شدہ توپخانہ کے علم و فن کو ردی فن کہا جاتا تھا۔ چنانچہ یہاں ہندوستان میں بھی اسلامی حکومتوں کے دوران توپخانہ کے وزیر کو ردی خان کہتے تھے۔ علاوہ ازیں چونکہ راقم بھی توپخانہ رجمنٹ سے متعلق ہے اس لئے راقم کو سلطان فاتح محمد کے ساتھ برادری تعلقات محسوس ہوتے ہیں۔
بہرحال ہم نے استنبول میں بڑی مسجد آیا صوفیا کی سیر کی۔ یہ عمارت کئی بار عیسائی نے توسیع کر کے بہت بڑا گرجا گھر بنا دیا تھا۔ چنانچہ جب فاتح محمد نے قسطنطنیہ کا قدیم اور عیسائی دنیا کا اہم ترین شہر فتح کیا تو گرجا کی قدیم عمارت کو قائم رکھ کر اسے مسجد بنا دیا اور یہ مسجد جامع آیا صوفیا کے نام سے مشہور ہوئی۔
لیکن بعد کی اسلام مخالفت کمالسٹ فوجی حکومتوں نے اکثر مساجد اور درسگاہوں کو عجائب بنا دیا اور چنانچہ جب ہم جامع آیا صوفیا میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ تمام بتوں اور تصاویر وغیرہ کو کھرچ کر اور روغن اتار کر دوبارہ نمایاں کر دیا گیا ہے اور چنانچہ تمام عیسائی وغیرہ غیرمسلم اپنی اپنی کتابیں لے کر گھومتے پھرتے عبادت کر رہے تھے۔ البتہ خلیفہ کی محراب کی جگہ پر خلیفہ کی جانماز کے اندر جانے کا راستہ ریشمی رسی باندھ کر بند کیا ہوا تھا۔ اس پر میری بیگم نے خلیفہ کی جانماز پر داخل ہو کر نماز پڑھنے کی ضد کی۔ میں نے بیگم سے کہا کہ ہر طرف پہرہ لگا ہے اور سخت پابندی ہے تو میری بیگم کہنے لگی بہت غیرمسلم لوگ اپنی اپنی عبادت کر رہے ہیں تو مجھے کوئی کیوں روکے گا۔ تو اسی اثنا میں نے سنتری کو باتوں میں لگا لیا اور اتنے میں میری بیگم نے رسی اٹھا کر خلیفہ کی جا نماز پر نماز پڑھنا شروع کر دی اور قریب میں جو لوہے کا گولا پڑاہوا تھا تو راقم نے سنتری سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ فاتح محمد کی توپ کا گولا ہے۔ اس توپ کے ساتھ فاتح محمد نے شہر پر قبضہ کر کے آیا صوفیا کو گرجا کی بجائے مسجد بنا دیا۔ جب سنتری کی نظر پڑی کہ میری بیگم تو نماز پڑھ رہی ہے تو اس نے کہا کہ یہاں تو نماز پڑھنا سخت منع ہے تو راقم نے کہا کہ اب تو نماز مکمل کر کے ہی باہر آئیں گی۔ چنانچہ دو رکعت نماز ختم کر کے خلیفہ کی جائے نماز سے واپس آئی۔ بیگم صاحبہ کی دلیری مجھے حالیہ دور یعنی 1989ءمیں مسجد قرطبہ میں نماز پڑھتے ہوئے یاد آئی۔ بہرحال استنبول کے بعد ہم قونیا کی طرف چل پڑے تو تقریباً نصف فاصلے پر انقرہ کا شہر آتا ہے۔ اسلامی شہر استنبول سے نفرت کرتے ہوئے کمالسٹ ترک فوج نے اپنا دارالخلافہ کو انقرہ بنا دیا۔ اور اب مصطفی کمال کی قبر بھی انقرہ میں ہے۔ قبر پر مقرر گائیڈ نے بتایا کہ اس کی میت کا منہ کعبہ کی طرف نہیں ہے کیونکہ یہ مسلمان نہیں تھا چونکہ وہاں پر مجھے سمتوں کا علم نہیں تھا اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ گائیڈ کا کہنا صحیح تھا یا غلط۔ میں نے قبر کی بخشش کے لئے دعا کی اور ہم قونیا کی طرف چل پڑے۔ قونیا شریف پہنچ کر ہم ٹیکسی لے کر مولانا روم کے مزار تک پہنچے لیکن کمالسٹ ترکوں نے ساری درگاہوں اور مساجد کو عجائب گھر بنا دیا ہے۔ اس لئے مزار بند تھا اور کھولنے کے وقت میں کچھ دیر تھی۔ بجائے وہاں بیٹھنے کے ہم شہر میں گھومنے لگے اور وہاں ہمیں ایک touist officeنظر آیا اور ہم اندر چلے گئے۔ وہاں کمرے کے ایک کونے میں ٹیبل کے پیچھے منیجر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے مصطفی کمال کی بڑی تصویر لگی ہوئی تھی۔ اور منیجر مجھے عربی سمجھ کر مصطفی کمال کی تصویر کے ساتھ میرا ہاتھ لگا کر کہنے لگا (ہذا کافر)۔ اس کے بعد ہم مولانا رومؒ کے مزار پر دعا سے فارغ ہو کر کچھ فاصلہ پر قونیا شہر ہی کے دوسرے محلہ میں مولانا رومؒ کے مرشد شاہ شمس تبریزؒ کی درگاہ کی زیارت کے بعد واپس جدہ آ گئے۔

ای پیپر دی نیشن