قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا شمار پاکستان پیپلز پارٹی کے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا اور اسی پارٹی پر ہی ختم کریں گے وہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں اس عرصہ میں پیپلز پارٹی پر عروج و زوال کا دور آیا لیکن انہوں نے ’’ادھر ادھر‘‘ دیکھنے کی بجائے اپنی پارٹی سے وابستگی قائم رکھی یہی وجہ ہے جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنانے کا فیصلہ کرنے کا وقت آیا تو سابق صدر آصف علی زرداری نے ان کے سر پر ’’تاج‘‘ سجا دیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت نہ ہونے کے باوجود قائد حزب اختلاف کا منصب محض اس لئے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی کہ ایم کیو ایم نے ’’خاموشی‘‘ سے سید خورشید شاہ کے لئے اپوزیشن لیڈر بننے کی راہ ہموار کردی وہ کسی صورت بھی تحریک انصاف کا اپوزیشن لیڈر بنانے کی حمایت کرکے اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم نہیں کر سکتی تھی قومی اسمبلی کے چھ سیشن ہو چکے ہیں وفاقی حکومت نے 5 دسبر 2013ء کو قومی اسمبلی کا ساتواں سیشن بلا رکھا ہے سید خورشید شاہ گزشتہ 6 ماہ سے خوش اسلوبی سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے فرائض انجام دے رہے ہیں ان کو اس منصب پر بیٹھنے کا موقع ملا ہے جس پر ماضی میں بڑی قد آور شخصیات فائز رہیں پاکستان کی پارلیمنٹ میں حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، سردار بہادر خان، نورالامین، ولی خان، مفتی محمود، حاجی سیف اللہ، سید فخر امام، غلام حیدر وائیں، غلام مصطفی جتوئی، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو، مولانا فضل الرحمن اور چوہدری نثار علی خان قائد حزب اختلاف رہے ہیں ہر دور کے قائد حزب اختلاف نے اپنی اپنی روایات قائم کیں چوہدری نثار علی خان کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ وہ طویل ترین عرصہ تک قائد حزب اختلاف رہے ہیں انہوں نے قومی اسمبلی کے ایوان میں طویل ترین اور دھواں دھار تقاریر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے انہوں نے حکومت سے مذاکرات میں سخت موقف اختیار کرکے چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب جیسے آئینی عہدوں پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کو لازمی قرار دلوا دیا گذشتہ ہفتے سید خورشید شاہ نے منسٹرز کالونی میں واقع اپنی رہائش گاہ جس کے بیشتر بنگلوں کے ’’مکین‘‘ نہ ہونے کی وجہ سے ’’بھوت بنگلوں‘‘ کا منظر پیش کر رہے تھے پر چند سینئر صحافیوں کو عشائیہ پر مدعو کیا اس موقع پر ان سے طویل نشست ہوئی انہوں نے ملکی سیاسی صورت حال پر کھل کر اظہار خیال کیا ان کی گفتگو کا محور وزیراعظم کے ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ کا سیاسی مستقبل تھا انہوں نے چیئرمین نیب کی تقرری پر وزیراعظم اور ان کے درمیان ہونے والی گفتگو اور رابطوں کو ’’آف دی ریکارڈ‘‘ قرار دے دیا تاہم انہوں نے حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کھل کر اپنا نکتۂ نظر پیش کیا سید خورشید شاہ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل6- کے تحت کارروائی کو جڑ کو نظر انداز کر کے شاخ کو پکڑنے سے تعبیر کیا ان کا موقف ہے کہ آئین شکنی کے مرتکب فوجی جرنیل کے خلاف کارروائی کا آغاز 12 اکتوبر 1999ء سے کیا جائے جب اس نے ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر ساڑھے آٹھ سال تک آمریت کی سیاہ چادر مسلط کئے رکھی۔ جنرل مشرف کی 3 نومبر 2007ء کی ’’ایمرجنسی پلس‘‘ جس کے تحت اس نے 60 سے زائد ججوں کو فارغ کر کے انہیں نظر بند کر دیا تھا کو آئینی تحفظ حاصل نہ ہونے کے باعث ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے جس پر سید خورشید شاہ نے اس بات کا عندیہ دیا کہ جنرل مشرف کے خلاف 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کے حوالے سے کارروائی میں آئین حائل ہوا تو وہ آئینی ترمیم منظور کرانے کے لئے مسلم لیگی حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہم پارلیمنٹ میں ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور حکومت کو پارلیمنٹ میں ناکوں چنے چبوا رہے ہیں کچھ عناصر مخصوص مقاصد کے لئے ہم پر ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کی پھبتی کستے رہے ہیں ہم نے ان کے ایجنڈے پر کام نہیں کرنا بلکہ وہ کچھ کرنا ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ میں نے شاہ صاحب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور پوچھا ’’شاہ صاحب کیا وجہ ہے آپ متحدہ اپوزیشن کے لیڈر بن سکے اور نہ ہی اپوزیشن کو متحد کر سکے تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر پاکستان پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت نہیں تاہم اس کے پاس اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ پارلیمانی قوت ہے جب ہم نے اپوزیشن لیڈر کی تقرری کے لئے ارکان کے دستخط کروا کر سپیکر کو درخواست دی تو اپوزیشن کی کسی جماعت نے اس کے خلا ف اپنی درخواست جمع نہیں کرائی اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری اپوزیشن نے مجھے اپوزیشن لیڈر کے طور پر قبول کر لیا ’’پھر یہ اچانک شیخ رشید احمد اس منصب کے حصول کے لئے کیوں ہاتھ پائوں مارتے رہے‘‘ میرے اس سوال پر سید خورشید شاہ کے چہرے پر آنے والی معنی خیز مسکراہٹ ہی اس کا جواب تھا انہوں نے کہا ’’ایک نشست کا حامل شخص اسی وقت اپوزیشن لیڈر بن سکتا ہے جب اسے تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی تائید حاصل ہو ایم کیو ایم تو ان کے ساتھ کھڑی نہ ہوئی تحریک انصاف نے ان کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی تجویز مسترد کر دی‘‘ میثاق جمہوریت کے تحت اپوزیشن لیڈر یا اپوزیشن کے نامزد کردہ شخص کو چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی بنایا جانا تھا کیا وجہ ہے پیپلز پارٹی کی قیادت آپ کو نظر انداز کر کے محترمہ عذرا پیہجوکو چیئرمین بنانے پر اصرار کر رہی ہے؟ تو سید خورشید شاہ نے کہا کہ انہوں نے ہی پارٹی قیادت کو محترمہ عذراء پیہجوکو چیئرمین بنانے کی تجویز پیش کی تھی لیکن حکومت چاہتی ہے کہ یہ عہدہ اپوزیشن لیڈر کو دیا جائے کیونکہ پاکستان میں یہ منصب اپوزیشن لیڈر کو دینے کی روایت قائم ہو گئی ہے انہوں نے پارٹی قیادت کو حکومت سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کر دیا پارٹی قیادت جو فیصلہ کرے گی وہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں گے سید خورشید شاہ نے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی سے نکتہ آفرینی کی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے’’فوکل پرسن‘‘ ہیں لیکن اہم اعلان سرتاج عزیز کی طرف سے کیا جا رہا ہے ایسا دکھائی دیتا ہے چوہدری نثار علی خان کو ’’سائیڈ لائن‘‘ کیا جا رہا ہے تو راقم السطور نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اور ان کو باور کرایا کہ چوہدری نثار علی خان کو ’’سائیڈ لائن‘‘ کیا جا رہا ہے اور نہ کسی غیر ملکی دبائو میں آ کر ان کو موجودہ ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جا رہا ہے میں نے انہیں بتایا کہ چوہدری نثارعلی خان وزیر اعظم محمد نواز شریف کی’’ چار رکنی کچن کیبنٹ‘‘ میں شامل ہیں جس کے تین ارکان کا تعلق ’’شریف فیملی‘‘ سے ہے لہذا اپوزیشن کو وزیراعظم کے ’’اوپننگ بیٹسمین‘‘ کے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں سید خورشید شاہ کی گفتگو سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ چوہدری نثار علی خان جیسے ’’عقاب صفت ہارڈ لائنر‘‘ سے خوش نہیں جو اپوزیشن کے سامنے سرنڈر کرنے کے لئے تیار نہیں جبکہ وہ مسلم لیگ (ن) کی فاختائوں سے معاملہ کرنے میں آسانی سمجھتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ تو ان کا کہنا ہے ’’وہ قدم بڑھائیں ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے دعوئوں میں کس حد سچی ثابت ہوتی ہے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔