تہران (اے ایف پی/ نوائے وقت رپورٹ) ایران کے ایٹمی بحران کا آغاز 2003ء میں ہوا جب آئی اے ای اے نے ننتاز کے ایٹمی پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں بتایا۔ 2005ء میں امریکہ نے ایران پر پابندیوں کا اعلان کیا۔ 2006ء میں ایران نے 3.5 فیصد تک افزودگی کی۔ اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کر دیں۔ 2007ء میں امریکہ نے کہا کہ اس نے ایران کے 3000 سنٹری فیوجز کا پتہ چلایا ہے۔ 2009ء میں اس وقت کے صدر احمدی نژاد نے اصفہان میں ایک اور یورینیم افزودگی کا مرکز کھولا۔ 2010ء میں ایران نے ننتاز میں 20 فیصد تک افزودگی شروع کر دی۔ 2013ء میں اب یہ معاہدہ ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے بیک ڈور چینل کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ ایران اور امریکہ میں خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ ایران اور امریکہ کے تعلقات 1979ء کے بعد تنائو کا شکار رہے۔ بانی انقلاب آیت اللہ خمینی نے امریکہ کو بڑا شیطان قرار دیا۔ تہران میں امریکی سفارتخانہ کا عملہ 15 ماہ قید رہا۔ 1979ء میں امریکہ نے ایرانی اثاثے ضبط کر کے سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے۔ 1980ء میں صدام حسین نے امریکی مدد سے ایران پر حملہ کر دیا۔ 1987-88ء میں واشنگٹن تہران جنگ کے نزدیک آ گئے۔ امریکہ نے ایران پر حزب اللہ اور حماس کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔ 1995ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ 1997ء میں اصلاح پسند صدر خاتمی کے برسراقتدار آنے سے تنائو کم ہوا۔ 2001ء میں جوہری پروگرام کا مسئلہ اٹھا۔ 2005ء میں احمدی نژاد کے انتخاب سے تعلقات بگڑنے لگے۔ عالمی طاقتوں نے ایران پر جوہری پروگرام بند کرنے کیلئے دبائو ڈالا۔ 2006ء سے 2008ء تک امریکی کوششوں سے ایران پر سخت پابندیاں عائد ہو ئیں۔