جب سے موجودہ حکومت آئی ہے مہنگائی کا شور صارفین کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ بجلی، پٹرول، ڈیزل، ٹماٹر، پیاز، چینی، کھاد، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب مہنگے ہو چکے ہیں جبکہ آٹے کی آئٹم واحد آئٹم تھی جسے سستا رکھ کر لوگوں کو ریلیف پہنچایا جا سکتا تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ کیا جا سکا۔ جب موجودہ حکومت عوام کی امنگوں کی ترجمان بن کر سامنے آئی تو امیدیں پہاڑوں کی طرح بلند تھیں۔ عوام پیپلز پارٹی کے دور کے ستائے ہوئے تھے جس نے پانچ سالوں میں کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے اور پالیسی نام کی کوئی چیز کسی بھی شعبہ میں نظر نہ آئی۔ گندم کو بھی لیجئے، 625روپے فی تھیلا سے بڑھا کر 1200روپے فی من کرنے کا سہرا بھی ان کے ہی سر سجا جس سے آٹا 270روپے فی تھیلہ سے بڑھ کر 785روپے تک جا پہنچا۔ انہی مسائل سے تنگ آ کر ن لیگ کو عوام نے موقع دے دیا اور ملک کے لئے بے شمار مسائل میں گھرے ہونے کی اطلاعات تو سب تک تھیں مگر ن لیگ کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کے پاس بہترین ٹیم ہوم ورک کے ساتھ موجود ہے۔ بجلی کے شعبہ میں سرکلر ڈیبٹ تو ادا کر دیا گیا مگر لوڈ شیڈنگ کم نہ ہو سکی۔ ڈالر کا ریٹ 107/108کی ریکارڈ سطح کو چھو چکا۔ ڈیزل پٹرول کی قیمتیں بھارت میں کم اور پاکستان میں زیادہ کر دی گئیں۔ آٹے کے سلسلے میں حقائق یہ ہیں کہ ملک میں 11مئی 2013ءکو کل سٹاکس 82لاکھ ٹن تھے اور اب بھی صورتحال نہیں بگڑی مگر صورت حال بگاڑنے کی زبردست کوششیں بعض مفاد پرست عناصر جو پیپلز پارٹی کی لوڈ میں بیٹھے ہوئے ہیں کی طرف سے جاری و ساری ہیں۔ پہلا واقعہ یہ ہوا کہ بھارت سے گندم درآمد کرنے کا مطالبہ داغ کر حکمرانوں کویہ تاثر دیا گیا کہ شاید ملک میں گندم کی قلت ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا اور 82لاکھ ٹن گندم سال کے آخر تک بھی ضرورت سے 10/12لاکھ ٹن زائد تھی مگر تاثر دے کر حکومت کو گمراہ کیا گیا دوسرا وقت یہ تھا کہ جب ملک بھر کی فلور ملوں کو سرکاری گندم کی فراہمی ہونا تھی۔ اسے غیرمعمولی طور پر ایک ماہ کے لئے تاخیر سے جاری کیا گیا اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ایک لابی نے ایک غلط فیصلہ کروا لیا جس کے اثرات آج بھی مہنگائی کی صورت میں نکل رہے ہیں۔ گندم جو حکومت 1200روپے میں خرید کو سٹور کرتی ہے اس کے اخراجات وغیرہ شامل کر کے 1275روپے میں فلور ملوں کو جاری کرنا بنتی تھی مگر بعض خرید کر رکھی تھیں جنہوں نے اپنے فائدے کے لئے گندم کا نرخ 1330روپے کرنے کا غلط مشورہ دیا۔ اس طرح ان ذخیرہ اندوزوں کی پرائیویٹ مارکیٹ میں گندم 1450روپے تک پہنچ گئی جبکہ حکومتی گندم بھی اگر 1330روپے میں دی جائے تو باردانہ کا نقصان اور ٹرانسپورٹیشن وغیرہ ڈال کر 1400تک جا پہنچی اور آٹے کا نرخ اسی حساب سے 785/790تک جا پہنچا۔ اگر گندم کا نرخ 1275رکھا جاتا تو عوام کو کم از کم 30روپے تھیلا تک ریلیف مل سکا تھا۔ رہی سہی کسر بجلی کے نئے نرخوں نے لگا دی۔ نوٹ کرنے کی بات ہے کہ یکم اگست سے پہلے انڈسٹریل ٹیرف میں 8روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی تھی جو یکم اگست سے 24روپے فی یونٹ کے حساب سے مل رہی ہے مگر اسی لابی نے اپنی گندم کے ریٹ مستحکم رکھنے کے لئے گٹھ جوڑ کے ذریعے آٹے کے نرخوں پر بجلی کے اثرات کو روک رکھا ہے جبکہ بجلی کی وجہ سے آٹا مزید 25روپے فی تھیلا مہنگا ہو سکتا ہے۔ گویا کوئی ہاتھ ایسے ہیں جو مسلسل ذخیرہ اندوزوں کے لئے سر پر رکھے ہوئے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ جو تمام اچھے کاموں کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور خاص طور پر ڈویلپمنٹ کے کاموں میں تو انہیں اس معاملہ پر بھی گہری نظر رکھنی چاہئے اور انہیں کم از کم اپنے 1330والے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے جبکہ محکمہ خوراک کی طرف سے گندم کی ڈسٹری بیوشن پر بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ شہروں میں کم کوٹہ رکھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ذخیرہ اندوز لابی کامیاب جبکہ عوام پھر ناکام ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب آٹے کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر رکوانے کا نتیجہ دکانداروں کی طرف سے ازخود قیمتیں بڑھانے کی شکل میں سامنے آ رہا ہے او آئے دن آٹے کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ ہمیشہ ایسی صورتحال میں سپلائی اور ڈیمانڈ کی بات کی جاتی ہے مگر شاید انتظامیہ کو اس کا ادراک نہیں اور وہ پوری مقدار میں گندم ہونے کے باوجود کم گندم فراہم کر کے نہ جانے کس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس صورتحال میں حکومت پنجاب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی پالیسی کو چیک کرے اور صورتحال کو بہتر بنانے میں گندم کی فراہمی میں فوری اضافہ کرے اور وزیراعلیٰ کو مس گائیڈ کرنے کی بجائے انہیں حقائق کے مطابق آگاہ کیا جائے کیونکہ ن لیگ کی حکومت عوام کے ووٹوں سے ہے اور حکومت میں جو کچھ بھی ہے جتنی بھی گندم ہے وہ عوام کے لئے ہے۔ اس کو غلط استعمال کر کے فائدہ اٹھانے والوں کے لئے نہیں۔ مزید گذارش ہے کہ باقی معاملات بھی ہیں۔ جن سے فلور ملوں کو کافی مشکلات ہیں جیسا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی اور محکمہ خوراک پنجاب دونوں کا جھگڑا فلور ملوں کے لئے باعث پریشانی ہے اور اس سلسلہ میں حکومت ایک محکمہ کو رکھے جو اپنا کام بہتر طریقہ پر انجام دے۔ اب بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں گندم کی کوئی کمی نہیں۔ مسئلہ صرف اس کی مناسب اور بہتر طریقہ پر تقسیم کا ہے جس میں ادارے بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو مسئلہ کچھ بھی نہیں ہے۔