’’مجرم پروفیسر‘‘

٭ آج کی نشست میں سیاسی کارکنوں اور افکار عالیہ اور بلند تر اخلاقی معیار اپنانے والوں کے لئے کچھ تجربات اور مشاہدات پیش کر رہا ہوں۔ کالج سے لیکچرار کا پیشہ چھوڑ کر ہم مسلم لیگ میں آئے۔ صدر محمد خاں جونیجو کے قریب ہوئے۔ ایک لمحہ ایسا تھا کہ اقبال احمد خاں کو وزیراعظم نواز شریف ناپسند کرتے تھے لہٰذا ان کا سنیٹر بننا ناممکن تھا۔ ہم نے کاغذات جمع کرائے مگر اتنے پیسے نہ تھے کہ مطلوبہ رقم پارٹی فنڈ میں جمع کرا سکتے۔ صدر مسلم لیگ اور پارلیمانی پارٹی کے اذہان میرے حق میں تھے مگر زر مطلوب جمع نہ ہونے پر ان کے ہونٹ بول ہی نہ سکے پھر ایک مالدار لیگی ممبر نے مجھ سے ناراضی میں کہا پیسے نہ تھے تو مجھے اشارہ کر دیتے اور میں مطلوبہ رقم پارٹی فنڈ میں جمع کرا دیتا یوں پارلیمانی پارٹی تمہیں ٹکٹ دے دیتی کیونکہ جونیجو بھی اقبال احمد خاں (سیکرٹری جنرل) کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف سے لڑنا نہیں چاہتے تھے بلکہ مسلم لیگی قوت کا اجتماع چاہتے تھے۔ اس زمانے میں میاں نواز شریف آئی جے آئی کے صدر بھی تھے۔
 ٭جب نواز شریف کی حکومت صدر غلام اسحاق خاں نے توڑی تو تقسیم شدہ لیگ میں ہم جونیجو گروپ کے ساتھ تھے جب پی ڈی ایف بنا تو رکن اسمبلی کا انتخاب لڑنا تھا (ج) گروپ اور پی ڈی ایف کی اجتماعی پارلیمانی فیصلہ سازی نے فیصل آباد سے مجھے ٹکٹ دیا مگر جہانگیر بدر نے آخری لمحے پی پی پی کا ٹکٹ اپنے رشتے دار کو دے دیا۔ یوں حامد ناصر چٹھہ کی کوشش کے باوجود بینظیر سے رابطہ نہ ہونے پر ہم از خود انتخابی عمل سے باہر ہو گئے۔ ردعمل شدید تھا لہٰذا علاقے کے لوگوں کو جمع کرکے ن لیگ کے اراکین کو جتوانے کا کہہ کر اسلام آباد چلے آئے۔ یوں پی پی پی کے دو ایم این اے اور ایک ایم پی اے ہمارے لیگی ردعمل کے نتیجے میں شکست کھا گئے اور ن لیگ کے اراکین جیت گئے۔ پی ڈی ایف حکومت بننے پر حامد ناصر چٹھہ نے ہمیں پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات بنایا جبکہ بابر اعوان ایڈووکیٹ، منظور وٹو، ریاض فتیانہ اور اقبال احمد خاں کے ذریعے یہ منصب چاہتے تھے۔ پی پی پی حکومت کی من مانیوں سے بالاخر تنگ آ کر ہم نے ازخود سیکرٹری اطلاعات کا منصب چٹھہ صاحب کو واپس کر دیا تو سیاسی عناصر ہمیں ان دنوں پاگل، بے وقوف اور احمق کہتے تھے۔ جب تک ہم سیکرٹری اطلاعات رہے ن لیگ کے دفتر جا کر سیکرٹری اطلاعات مشاہد حسین سید سے ملتے لیگی اتحاد کی باتیں کرتے تھے۔ پی ڈی ایف حکومت سے نہ پلاٹ لیا نہ پرمٹ نہ مالی مدد۔ ہاں چٹھہ کی خواہش پر بینظیر صاحبہ ہمیں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بنانے پر آمادہ تھی مگر مولانا فضل الرحمان 6 ووٹوں کی وجہ سے مولانا شیرانی کے لئے اصرار کرتے تھے۔ بعدازاں اقبال احمد خاں کو سنیٹر بننے سے روکنے کے لئے چیئرمین کا منصب انہیں دیا گیا تھا۔ یہ سب کچھ نوابزادہ نصراللہ اور منظور وٹو کی وجہ سے ہوا تھا۔
٭ حکومت ختم ہونے سے پہلے ہم ترک سیاست اور ترک دنیا کی حالت میں تھے۔ وجدان کی بنیاد پر مشاہد حسین سید اور پرویز رشید کو بتا دیا کہ نواز حکومت ختم ہونے والی ہے جبکہ ان کا خیال تھا کہ ہم ’’کہیں‘‘ سے ’’خبر‘‘ رکھتے ہیں۔ جب حکومت ختم ہو گئی مشاہد حسین نظربند اور پرویز رشید لاہور میں تشدد سے دوچار ہوئے تو ہم ان دونوں کے لئے بہت دعائیں کرتے۔ پرویز کے لئے کئی بار آنسو تک آ گئے۔ نواز شریف کی زندگی کی بھیک اکثر اللہ تعالیٰ سے مانگتے البتہ کھل کر جنرل مشرف کے انقلاب کی حمایت میں کالم لکھے۔ مگر اس کا نہ مالی معاوضہ نہ پلاٹ نہ پرمٹ لیا۔ قوت لایموت کا بندوبست اللہ تعالیٰ کرتے رہے اور ہم کالم لکھتے رہے۔
٭جب شریف برادران جدہ میں مقید تھے ہم نے ان کے ذاتی اوصاف میں چند کالم لکھے اس طرح ان کو لندن جانے کی اجازت پر مبنی کالم لکھے جبکہ ن لیگ کا کوئی آدمی ہم سے رابطے میں نہ تھا۔ جب جنوری 2003ء میں سعودی حکومت نے ہمیں ریاض بلوایا تو ہم نے جناب مجید نظامی سے اجازت لی کہ ہم شہباز شریف سے جدہ میں ملنا چاہتے ہیں۔ ان کی اجازت سے ہم سرور پیلس جدہ میں شہباز شریف سے ملنے گئے۔ نواز شریف نے ہم سے ملنے میں دلچسپی نہ لی لہٰذا شہباز شریف سے ساڑھے تین گھنٹے بات چیت کرکے لوٹ آئے۔ واپس آ کر ہم نے بہت غور و فکر کیا کیونکہ ہمارا وجدان کہتا کہ شریف خاندان کو ایک بار اقتدار ملنا چاہئے۔ ہم نے شریف خاندان کی جھولی میں اقتدار اور سیاست ڈالنے کے لئے نوائے وقت اور اوصاف میں شہباز شریف کو متبادل قیادت بناتے کالم لکھے اور بہت زیادہ لکھے تھے ہمارے کالموں کی وجہ سے ن لیگ کے عام کارکنوں کا مورال بلند ہوا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...