اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + اے پی پی+ آئی این پی + نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جائز جدوجہد آزادی کے لئے اپنی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا نوٹس لے اور لائن آف کنٹرول پر بگڑتی ہوئی سکیورٹی کی صورتحال کے خاتمے میں اپنا فعال کردار ادا کرے۔ اس بات کا اظہار وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے وادی نیلم کے قریب مسافر بس پر خون ریز حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا۔ سرتاج عزیز، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے دھونیال سیکٹر میں بھارتی سیز فائر کی بلا اشتعال خلاف ورزیوں پر وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں بس پر حملے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کے حصول کے لئے ان کی جائز جدوجہد کے لئے سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ اجلاس نے پاکستان کی مسلح افواج کے جوانوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے گزشتہ روز مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اجلاس نے ایمبولینس کو نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے کہا بھارت کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستانی قوم اپنے کشمیریوں بھائیوں کو کبھی نہیں چھوڑے گی اور ان کی منصفانہ اور اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت جدوجہد آزادی کے لئے اپنی حمایت جاری رکھے گی۔ اس موقع پر وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا پاکستان نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے سیز فائر کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود انتہائی ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا ہم بے گناہ شہریوں خاص طور پر بچوں اور خواتین، ایمبولینسوں اور سویلین ٹرانسپورٹ کو دانستہ طور پر نشانہ بنائے جانے اور جارحیت کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ ہم کشمیری بھائیوں کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے آزادکشمیر میں بس اور ایمبولینس پر بھارتی حملے کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل جان ایلیاسن اور سیکرٹری جنرل کے نمائندے ایڈمنڈ مولٹ سے ملاقات کی اور انہیں کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر ملیحہ لودھی نے کہا مسافر بس اور ایمبولینس پر حملہ انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی اورگھناو¿نا جرم ہے۔ اقوام متحدہ ملٹری آبزرور گروپ کو صورتحال کی مانیٹرنگ کیلئے متحرک کرے۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی روکنے اور کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات اٹھائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کنٹرول لائن پر صورتحال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ پاکستانی مندوب نے کہا اقوام متحدہ اس صورتحال کو ایک مکمل تنازع کی صورت اختیار کرنے سے قبل مو¿ثر اقدامات کرے۔ علاوہ ازیں ترجمان دفتر خارجہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت ملنے تک ان کی مدد کرتا رہے گا۔ ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان نے کہا کہ بھارت نے ہر مرتبہ پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو ٹھکرایا، وقت آ گیا کہ عالمی برادری اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ بھارتی فوج کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر شہریوں کو نشانہ بنائے جانے میں 44 سے زائد کشمیری شہید اور 135 زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارت کو اس کی جارحیت کا بھرپور لیکن احتیاط سے جواب دیا جاتا ہے اور صرف بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا کو اس معاملہ کی حساسیت سے بار بار آگاہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ڈی جی ایم او نے اپنے بھارتی ہم منصب سے مختصر بات کی اور انہیں کھلا پیغام دیا کہ شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا جانا قابل قبول نہیں۔ الطاف حسین کے معاملے کو وزارت داخلہ دیکھ رہی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے حالیہ دورہ برطانیہ میں معاملہ بھرپور انداز میں برطانوی حکام سے ملاقاتوں میں اٹھایا ہے۔ ہارٹ آف ایشیا میں سرتاج عزیز نے شرکت کا اعلان کیا تھا جب اعلان کیا گیا تھا تو اس وقت بھی صورتحال اچھی نہیں تھی، ہارٹ آف ایشیا میں سرتاج عزیز کی شرکت کا مقصد افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی کوششوں میں حصہ لینا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ کو اس میں دیگر ممالک کی شمولیت کے آپشن سے بھی آگاہ کیا گیا۔ سی پیک کے حوالے سے سکیورٹی ایک چیلنج ہے، بھارت کھل کر کہہ چکا ہے کہ وہ سی پیک کا مخالف ہے، اس کے پکڑے گئے جاسوس کلبھوشن یادیو کا اس حوالے سے اعترافی بیان بھی موجود ہے۔ بھارتی ہائی کمشن میں انڈر کور سفارتکاروں کا سامنے آنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں سی پیک کے ہدف ہونے پر بھی برطانوی وزیر خارجہ کو اعتماد میں لیا گیا۔
وزیراعظم / معاملہ اقوام متحدہ