"معزز قارئین و قاریات! آج 25 نومبر ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف آج سے 3 دِن بعد 28 نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ یہ جنرل صاحب کی اپنی خواہش تھی۔ تا دمِ تحریر مجھے نہیں معلوم کہ "New Army Chief" کون ذاتِ شریف ہونگے؟ ہمارے سارے سیاسی اور مذہبی قائدِین کا ”عقیدہ“ ہے کہ ”بدترین جمہوریت، بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے“۔ جنرل راحیل شریف نے بھی اپنی ”بہترین آمریت“ قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نئے چیف آف آرمی سٹاف کا مزاج کِس طرح کا ہو گا؟ یہ تو کوئی ماہر دست شناس اُن کے دائیں ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر ہی بتا سکتا ہے۔
فوجی آمر اور بااختیار وزیراعظم کو کاتبِ تقدیر نے ہی یہ اختیار دِیا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی منتخب رکن قومی اسمبلی یا غیر منتخب شخص کے دائیں ہاتھ پر وزارت یا مشاورت کی لکیر کھینچ دے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں پاکستان کے 40 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ صدر زرداری کے دَور میں 50 فی صد اور وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے بیان کے مطابق ”وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں ایسے لوگوں کی تعداد 60 فی صد ہو گئی ہے“۔ ہر دَور کے مولوی صاحبان عام لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ”غربت اور امارت کی لکیریں کاتبِ تقدیر ہی کھینچتے ہیں۔
قائدِاعظم نے اپنی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر قوم کے نام وقف کر دِیا تھا۔ اُس کے بعد کسی حکمران نے ایسا کیوں نہیں کِیا؟ اُس کی مرضی۔ جن حکمرانوں/ سیاستدانوں نے قومی دولت لُوٹ کر غیر ملکی بنکوں میں جمع کرائی اور اُنہوں نے اور اُن کی اولاد نے غیر ملکوں میں جائیدادیں بنا لیں، اُن کا آج تک کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ ہمارے یہاں پارلیمنٹ کو "Supreme" (رتبے یا اختیار میں سب سے بڑھ کر۔ بالا ترین، اہم ترین اور عظیم ترین) کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے قومی خدمات انجام دینے پر حکومت کی طرف سے مِلنے والے اپنے اربوں روپے کے دو قیمتی پلاٹ ”شہدا فنڈ“ کے لئے وقف کر دئیے۔ یہ اُن کی اپنی مرضی تھی۔
اگر جنرل صاحب کی تقلید میں وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر زرداری یا کسی اور ارب پتی/ کھرب پتی سیاستدان نے ایسا نہیں کِیا تو اُس کی مرضی۔ 18 مئی 2016ءکو جناب عمران خان نے مظفر آباد میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل اُلرحمن کو چھیڑتے ہُوئے کہا تھا ”مولانا ڈیزل کا نیا نعرہ یہ ہے کہ ”رقم بڑھاﺅ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں“۔ اگلے دِن 19 مئی کو قومی اسمبلی کے ارکان نے متفقہ طور پر اور بہ آواز بلند، چند ہی منٹ بعد ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخوا تین گنا اور الاﺅنسز دس گنا بڑھا دئیے۔ 23 نومبر کو جنرل راحیل شریف نے اعلان کِیا کہ ”ہم بھارتی جارحیت کا مو¿ثر جواب دیں گے“ اور قائم مقام وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے عوام کو اطلاع دی کہ ”بھارت نے پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے“۔ اور اُسی روز جنابِ وزیراعظم کی صدارت میں منعقدہ وفاقی کابینہ نے چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزراءاور پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہوں میں (اکتوبر 2016ءسے) 150 فی صد اضافہ کر دِیا ہے۔ صِرف 40 کروڑ روپے سے زیادہ اضافی اخراجات ہوں گے۔ اِس پر ”شاعرِ سیاست“ نے کہا
”کٹّھے ہووِئیے، بھاویں کلّے
رقماں ہووَن، ساڈے پلّے
کیوں نہ کرئیے، اللّے، تللّے
وفاقی کابینہ دِی بلّے بلّے“
ثابت ہُوا کہ پارلیمنٹ نہیں وفاقی کابینہ "Supreme" ہے اور وزیراعظم "Supremo" (مُختارِ کُل) 19 مئی کو ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہیں تین گنا اور الاﺅنسز دس گنا بڑھانے میں قومی اسمبلی کے تمام ارکان ایک "Page" پر تھے۔ جنرل راحیل شریف جب تک آرمی چیف رہے۔ مسلم لیگ ن، وفاق اور پنجاب کے وزراءہر روز حلفیہ بیان جاری کِیا کرتے تھے کہ ”وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک ہی "Page" پر ہیں۔ "Page" کے معنی ہیں صفحہ ”صفحہ¿ ہستی“ دُنیا کو کہتے ہیں۔ اِس لئے کہا جاتا ہے کہ ”سارے انسان ایک ہی "Page" صفحہ پر ہیں“۔ ”شاعرِ سیاست“ نے نہ جانے کِس موڈ میں اور کِسے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا
”یوں تو مُدت سے تُو میرے ساتھ ہے، "Engage" ہے
پھر کیوں میرا اور تیرا، وکھرا وکھرا "Page" ہے“
4 فروری 2016ءکو وزیراعظم خیبر پختونخوا کے دَور پر گئے تو خبر آئی کہ ”جنرل راحیل شریف فوجی جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر تھے اور وزیراعظم نواز شریف مہمان/ مسافر کی سیٹ پر“۔ پھر مسلم لیگ نُون کے فنکاروں نے یہ تاثر دِیا کہ ”وزیراعظم صاحب اور آرمی چیف ایک ہی "Page" پر ہیں“۔ پھر ”دونوں شریف بھائی“ کا نعرہ بھی لگایا گیا حالانکہ جنرل راحیل شریف کا تعلق قوم اور ملک کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے والے شہیدوں کے خاندان سے ہے اور میاں نواز تاجر پیشہ ہیں اور وقت نے میاں صاحب کو ” تاج دار “ (وزیراعظم) بنا دِیا۔ مَیں نے گذارش کی تھی کہ ”آئندہ وزیراعظم صاحب آرمی چیف کے ساتھ ایک ہی گاڑی میں سوار نہ ہُوں“ کیونکہ بھوکے، ننگے اور بے گھر عوام ”دونوں شریف بھائی بھائی“ کا نعرہ سُن کر نہ جانے کیا سمجھ بیٹھیں؟
مَیں نے 28 جنوری 2016ءکو ”جنرل راحیل شریف اور جنرل بخت خان“ کے عنوان سے اپنے کالم میں لِکھا تھا کہ ”آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ کے دَور میں 1857ءکی جنگِ آزادی کے ہیرو (اودھ کے مسلمان راجپوت) جنرل بخت خان نے 31 مئی کو اپنی 30 ہزار فوج کی کمان کرتے ہُوئے دہلی میں انگریزی فوج کو شکست دے دی تھی لیکن مُغل شہزادوں، درباریوں کی سازشوں اور بہادر شاہ ظفر کے فیصلوں کی کمزور طبیعت کے باعث جنرل بخت خان، بادشاہ سے ناراض ہو کر کہیں چلے گئے‘ رُوپوش ہوگئے“۔ نواز شریف کمزور بادشاہ بہادر شاہ ظفر نہیں ہیں منتخب وزیراعظم ہیں۔ جنرل راحیل نے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے اپنے عہدے کی توسیع کے لئے درخواست بھی نہیں دی تھی تو پھر انہیں مقررہ وقت پر اپنی خواہش کے مطابق ریٹائر تو ہونا ہی تھا۔
8 جنوری 2016ءکو امریکی ادارے "A.P.C" کی رپورٹ سے ہر محبِ وطن پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہوگیا تھا جس کے مطابق ”پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف دُنیا کے دس جنرلز میں سے اعلیٰ، برتر اور بلند جنرل ہیں اور بھارت کے آرمی چیف جنرل دلیر سنگھ آٹھویں نمبر پر“۔ لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے بڑے شہروں کی دیواروں پر جنرل راحیل شریف کے چاہنے والوں نے بڑے بڑے پوسٹر چسپاں کر کے جنرل راحیل شریف کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی اپیل کی لیکن اُنہوں نے تو باعِزت ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لِیا تھا۔ اہلِ پاکستان انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے اور نئے آرمی چیف سے بھی توقع رکھیں گے کہ وہ بھی جنرل راحیل شریف کی طرح بلکہ اُن سے بڑھ کر ملک اور قومی کی خدمت کریں۔ اِس جذبہ کے ساتھ "Goodbye General Raheel Sharif, Welcome New Chief!"