آصف زرداری نے میاں نوازشریف کو ملنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ میاں نوازشریف نے زرداری کو جمہوریت کی بقاء اور تسلسل کی خاطر تعاون کی پیشکش بھی کی تھی اور چارٹر آف ڈیموکریسی پر پابندی کا بھی یقین دلایا تھا۔ دراصل ہوا یہ ہے کہ بینظیربھٹو کے بعد پیپلزپارٹی جمہوری اور نظریاتی جماعت نہیں رہی۔ اب یہ دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ جمہوری اقدار کی پاسداری بھی اب پی پی کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ زرداری جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے غیرجمہوری قوتوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو پھر ان کا حال بھی نوازشریف جیسا ہی ہوگا۔ یعنی کرپشن کے تمام کیسز کھل جائیں گے اور زرداری بھی عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہونگے۔ اسی لئے پی پی حلقہ بندیوں کی ترمیم بھی منظور کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے کیونکہ یہ بات تمام اداروں‘ افراد اور جماعتوں پر واضح ہو چکی ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد نوازشریف کی مقبولیت کا گراف اوپر ہی گیا ہے۔ دوسرے نوازشریف عوام کو یہ بات باور کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں کہ عدالت نے غلط فیصلہ دیا ہے۔ ان پر کرپشن کا کوئی کیس اور الزام ثابت نہیں ہو سکا بلکہ اقامہ کا سہارا لیکر انہیں عہدے سے برخاست کر دیا گیا ہے جوکہ سراسر ناانصافی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب غیرجمہوری قوتوں کے خلاف کیونکہ جمہوریت کی بقاء کی جنگ اکیلے نوازشریف لڑ رہے ہیں‘ دوسری کوئی بڑی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہے۔ اسی لئے وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اب نوازشریف ایک فرد کا نہیں‘ ایک نظریئے کا نام ہے اور لوگوں کی اکثریت نوازشریف کی بات پر اعتبار کر رہی ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا کسی بھی طرح کے سروے کیلئے حتمی پیمانہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثریت نوازشریف کے حامیوں کی دکھائی دے رہی ہے اور اب وہ لوگ جو نوازشریف کے خلاف تھے‘ وہ بھی نوازشریف کے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ نوازشریف کی اس جنگ میں عوام کی اکثریت نوازشریف کی ہمنوا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پی پی‘ پی ٹی آئی اور دیگر غیرجمہوری قوتوں کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے کہ کرپشن پر نوازشریف کو نہ نکال سکے تو اقامہ پر نکالا۔ لوگوں کو نوازشریف سے جتنا بدظن کرنے کی کوشش کی‘ نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ اسی لئے عمران قبل از وقت انتخابات کی رٹ لگا رہے ہیں اور پی پی نئی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل منظور نہیں کروا رہے ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی حقیقت یہ ہے کہ پی پی کو بھی اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ آئندہ الیکشن اگر بروقت ہو گئے تو مسلم لیگ (ن) پورے ملک میں جھاڑو پھیر دے گی اور پی پی کے ہتھ کچھ نہیں آئے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل کبھی منظور نہیں ہونے دے گی۔ نہ اس پر راضی ہوگی کیونکہ اب پیپلزپارٹی ایک غیر جمہوری‘ غیر عوامی اور غیرمقبول جماعت بن چکی ہے۔ عوام میں اس کی جو جڑیں تھیں‘ وہ خشک ہو چکی ہیں۔ زرداری اب اپنی دولت کا تحفظ کرنے میں غیرجمہوری قوتوںکے آلۂ کار بن چکے ہیں۔ بلاول کو بڑوں کے ساتھ بات کرنے کی تمیز بھی زرداری نے نہیں سکھائی۔ وہ نوازشریف کے متعلق بہت گستاخانہ لہجہ استعمال کرتا ہے۔ اسے کم از کم نوازشریف کی عمر کا لحاظ کرنا چاہئے۔ یہ ہماری مشرقی روایات کے خلاف ہے کہ بڑوں کے ساتھ بدتمیزی کی جائے۔ بلاول کہتا ہے کہ ’’نوازشریف کو نظریئے کے معنی بھی نہیں آتے۔‘‘ تو بلاول بتا دے کہ نظریہ کیا ہوتا ہے؟ اور پی پی کا بنیادی نظریہ اس وقت کیا ہے؟راولپنڈی کے دھرنے نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ دھرنے والوں کو کم از کم قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد سے متعلق جو احکامات دیئے ہیں‘ انہی کا پاس کر لینا چاہئے کیونکہ حقوق العباد کے معاملے میں سخت بازپرس ہوگی۔ اگر یہ کوئی مذہبی دھرنا ہوتا تو ترمیم منظور ہونے کے بعد ختم ہو چکا ہوتا۔ یہ دھرنا اب سیاسی بن چکا ہے جس کا مقصد حکومت گرانا ہے اور اس دھرنے کو بھی عمران کے دھرنے کی دوسری قسط کہنا چاہئے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ اب جو مطالبات دھرنے والے کر رہے ہیں‘ ان کا کوئی تعلق مذہبی نظریات سے نہیں۔ اگرچہ عدالت بھی حکومت کو دھرنا ختم کروانے کے احکامات صادر کر چکی ہے‘ لیکن حکومت کسی قسم کے خون خرابے اور دنگے فساد سے کترا رہی ہے۔ اسی کا فائدہ دھرنے والے اٹھا رہے ہیں‘ لیکن وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کے دھرنے کے باعث بچے سکول جانے اور لوگ اپنے کام کاج پر جانے اور آنے سے معذور ہو چکے ہیں۔ ملک کا کروڑوں کا نقصان روانہ ہو رہا ہے۔ یوں بھی اب سرکار دوعالمؐ کے میلاد کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں خوشیاںمنانا اور دوسروں کو خوشیاں منانے کی کھلی اجازت دینا عین ثواب ہے۔ دھرنے والے میلادالنبیؐ کے مبارک مہینے کے صدقے دھرنا ختم کریں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔