ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں 28 سالہ میجراسحاق کی شہادت کے بعد ڈیڑھ سالہ بچی اور نوجوان بیوہ کی شہید کے تابوت کے ساتھ بے بسی کی تصویر بنی ماں بیٹی کا قوم کے نام ایک خاموش پیغام، اس مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے ابھی کتنا خون درکار ہوگا، دہشت گردوں کے خاتمے کا عزم لیے ملک و قوم کے باسیوں کو سکون کی نیند سلانے کی کوشش میں اب تک 10 ہزار سے زائد افسر و جوان شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہو چکے ہیں، اس ارضِ مقدس کے دفاع کیلئے اپنے خاندان، اپنے بیوی بچوں کو حسرت و یاس کی تصویر بنے اس دھرتی ماں کو اپنے لہوسے رنگ رہے ہیں، اس کے چپے چپے کے دفاع کیلئے ہماری فورسز کے بے شمار سپوت زخمی ہو کر اپنے سینے پر غازی کی تختی سجائے موت و حیات کی زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف مسلح افواج کے جوان ہی نہیں ہماری پولیس کے افسروں و جوانوں نے شہادتوں اور غازیوں کی شاندار تاریخ رقم کی ہے، ان کے بچے، بیوی اور والدین نہ جانے کیسے کیسے سپنے اور خواہشیں ان شہیدوں کے ساتھ ہی لحد میں اُتر گئیں۔ نوجوان میجر اسحاق کی ڈیڑھ سالہ بیٹی اور نوجوان بیوہ کی تابوت کے ساتھ تصویر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ جو آج ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، اس میں ہماری سیاست شامل ہے اور سیاست کے کل پرزے جو وقت کے ساتھ لٹو کی طرح گھوم جانے میں مصلحت سمجھتے ہیں، اس ملک کا جونکوں کی طرح خون چوس کر اپنی اور اپنی نسلوں کی آبیاری کرنا ان کا محور اور مرکز ہے، شاید اسی لیے ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا پڑا ہے کہ ادارے شخصیات سے زیادہ اور ملک اداروں سے زیادہ اہم ہوتا ہے، سیاست کی اپنی ڈومین ہے مگر آئین کی شقیں مخصوص مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہئے، ان حالات میں ان الفاظ کا چنائو ایک زبردست پیغام ہے، خوابِ خرگوش میں ید طولیٰ رکھنے والی اس پاکستانی قوم کیلئے جو سب کچھ دیکھ کر آنکھیں بند کر کے ووٹوں کی پرچیوں پر ٹھپے لگاتی ہے اور پھر سوجاتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے فوری بعد انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پاکستان کو بیرونی دنیا سے 350 ملین ڈالر قرضہ لینا پڑا جو حالات اور وقت کی ضرورت تھی، جنرل ایوب نے اُس میں سے 180 ملین ڈالر ادا کر کے نہ صرف قرضہ کم کروا دیا بلکہ پہلی بار پاکستان نے بیرونی ممالک کو قرضے دئیے جن میں جرمنی بھی شامل تھا مگر جونہی عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا یہ قرضہ 6341 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، اس تباہ کن جمہوری دور میں کوئی بھی قابلِ ذکر منصوبہ نظر نہ آیا بلکہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔ جنرل ضیاء الحق دور میں یہ قرضہ 12913 ملین ڈالر تک پہنچ گیا مگر اس گیارہ سالہ دور میں روس جیسی سپر پاور کے ساتھ جنگ، ایٹمی پروگرام کی تکمیل، ایف سولہ طیاروں کی خریداری اور چھوٹے ڈیموں کا بننا قرضوں کا ایک جواز نظر آرہا تھا، بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف کے ادوار میں یہ بیرونی قرضہ 39000 ملین ڈالر تک پہنچ گیا، جنرل پرویز مشرف کے دور میں 5 ہزار ملین ڈالر کے قرضے کم کروائے گئے جبکہ صدر آصف زرداری کے دور ِحکومت میں یہ بیرونی قرضے 48100 ملین ڈالر بن گئے، اب میاں محمد نوازشریف کے دورِ حکمرانی میں یہ قرضے 84000 ملین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، صرف چار سال میں 35900 ملین ڈالر کا کمر توڑ قرضہ لیا گیا جو پاکستان کی سابقہ 66 سالہ تاریخ میں لیے گئے کل قرضوں کے برابر ہے، ابھی چند ماہ بعد پاکستان کو صرف سود کی مد میں 11000 ملین ڈالر ادا کرنے ہیں، یہ ہے جمہوریت کا حسن اور سیاستدانوں کی ترقی، ان بیرونی قرضوں سے سیاستدان تو ارب کھرب پتی ہو چکے ہیں مگر پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے، یہ قرض کون چکائے گا، آج ہماری قوم کیلئے یہ سوالیہ نشان ہے کہ یہ ہے ہماری جمہوریت؟ مگر اس میں صرف سیاستدانوں کا قصور نہیں، عوام، اہل عقل و دانش اور فہم و فراست بھی اتنے ہی مجرم ہیں جنھوں نے قوم کی تربیت نہیں کی، آج ہم پر حکمرانی کرنے والے ہی نہیں اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں، ہم سب اپنی آنے والی نسلوں کے ملزم ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے کا بہت خبط تھا، کبھی اپنی پگڑی میں کبوتر کے انڈے ڈال لیتا اور کبھی اپنی عبا پر انوکھے ڈایزئن بنواتا، ایک روز اُس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ مجھے ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے اور ایسا لباس کسی کے پاس نہ ہو ، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہاری گردن اُڑا دوں گا، درزی اب بادشاہ کے سامنے انکار کرتاتو گردن زنی ہو جاتی، اُسے بادل نخواستہ ہامی بھرنی پڑی، زندگی بچانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے کچھ دنوں بعد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ صندوق میں لباس تیار ہے مگر حضور یہ غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں اور یہ لباس دنیا میں ایک ہی ہے اِس کی خوبیاں بے شمار ہیں مگر سب سے بڑی خوبی یہ صرف عقلمند اور دور اندیشوں کو نظر آئے گا، کسی عقل کے اندھے کو اس لباس کا ایک دھاگہ بھی نظر نہیں آئے گا، بادشاہ خوشی خوشی حمام میں گیا اور جب صندوق کھولا تو وہ خالی تھا، بادشاہ نے سوچا کہ لباس تو موجود ہے مگر اُسے نظر نہیں آرہا، اب بادشاہ اپنی عقل اور عزت کو بچانے کیلئے ننگا ہی کمر پر ایسے ہاتھ رکھ کر ایک بازو پھیلائے جیسے وہ لباس کا پلو سنبھالے ہوئے ہے دربار میں آگیا۔ دربار میں عقلمندوں، وزیروں اور مشیروں کا ہجوم تھا، کسی کو بھی راندہ درگاہ ہونا قبول نہ تھا، سب نے واہ واہ ، سبحان اللہ کا شور بلند کیا اور لباس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے، اگلے روز ہی شہر کے گلی کوچوں میں ڈھول پیٹ پیٹ کر منادی کرا دی گئی کہ ظلِ سبحانی بادشاہ سلامت ایک انوکھے لباس میں پورے شہر کا دورہ کریں گے، لباس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عقلمندوں کو نظر آئے گا، بے وقوف اس کا ایک دھاگہ بھی نہیں دیکھ پائے گا، اگلے روز سورج نے وہ انوکھا لباس تو نہ دیکھا مگر اپنی زندگی کا انوکھا منظر ضرور دیکھا کہ بادشاہ ننگا گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ ہوا میں ایسے اٹھائے جیسے لباس کا پلو پکڑے ہوئے ہے ، اُسکے جلو میں سینکڑوں چاپلوسی کرنے والے درباری چلے آرہے ہیں اور رعایا سڑکوں کے کنارے کھڑی بادشاہ پر پھول برسا رہی ہے، ہر کوئی اس اَن دیکھے لباس کو دیکھ کر واہ واہ کر رہا ہے، جو کسی کو بھی نظر نہیں آرہا۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ یہ جلوس ایک کھیل کے میدان میں جانکلا جہاں بچے کھیل رہے تھے، وہاں کھیلتے ہوئے سب سے چھوٹے بچے نے جب یہ ہیت کذائی دیکھی تو چلّا اُٹھا ارے دیکھو! بادشاہ ننگا ہے! افسوس آج ہم من حیث القوم اس حمام میں ننگے نظر آرہے ہیں، ذاتی عداوت اور شخصی اَنا پرستی کی خاطر اداروں کو تہہ و بالا کیا جا رہا ہے۔