محمد ریاض اختر
riazakhtar.nw@gmail.com
لپٹنا‘ چھٹنا چھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
مانند خورشید خود کو متحرک رکھنا بیدار ذہن کی علامت اور آسمان چھونے کی تعمیری کوشش ہے۔ شاعر مشرقؒ ایسے شاہین صفت نوجوانوں پر نازاں تھے جن کی تحریک معاشرے کو مثالی اور نمایاں بنانے میں سنگ میل ہے۔ بحریہ یونیورسٹی کے گریجویٹ قاضی گوہر قریشی بتا رہے تھے کہ وطن عزیز میں تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کی تعداد ایک کروڑ کو چھو رہی ہے۔ مسلسل بیروزگاری ‘ مہنگائی اور عدم سرپرستی کے اندھیروں نے نوجوان نسل کو اطراف سے گھیر لیا۔ گوہر صاحب چاہتے ہیں کہ حکومتی سطح سے یوتھ پالیسی کا اجراء ہو جس میں سپورٹس‘ تعلیم اور سماجی بہبود کی وزارتیں نوجوانوں کو فوری فراہمی روزگار کا ہدف مقرر کریں 22 سالہ قاضی گوہر قریشی کی وجہ شہرت نیزہ بازی ہے۔چھوٹی سی عمر میں انہیں اسلام آباد غازی نیزہ بازی کلب کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ راولپنڈی سہام کی زمیندار فیملی قاضی طاہر قریشی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے دادا قاضی محمد ایوب قریشی اور نانا بابو شفقت قریشی کی انسان دوستی معتبر درجے کا حوالے رکھتی ہیں اپنے بارے میں نوجوان نیزہ باز کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے ماموں جان اور کزن کو دیکھ کر یہ شوق ہوا۔ وہ گزشتہ ایک سال سے باقاعدہ مقابلوں کا حصہ بن رہے ہیں اسلام آباد غازی نیزہ بازی کلب کی طرف سے مختلف ٹورنامنٹ سے منسلک رہے‘ الحمداللہ والدین کی دعاؤں سے ہربار عزت کے پھول حاصل کئے‘ نیزہ بازی پاکستان کے قدیم ترین کھیل میں شامل ہے معلوم تاریخ کے مطابق مغلیہ دور میں اس کھیل کو عروج ملا‘ ذرا مزید گہرائی میں دیکھا جائے تو نیزہ بازی جنگ کا بھی حصہ رہی اچھے نیزہ بازوں کو ہر دور میں پژیرائی ملتی رہی عسکری صلاحیت کے حامل افراد زمانہ امن میں گھڑ سواری اور تیر اور تلوار کے ساتھ زمین سے کلہ اکھاڑنے کے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس کھیل میں گھوڑے کا توازن‘ اس کی رفتار پر کنٹرول اور ہدف پر نظریں گاڑھنا ضروری ہوتا ہے ایک لمحے کے لیے نظر خطاء ہوجائے تو ساری مشق رائگاں ہوجاتی ہے۔ میری والدہ کی دعاؤں کی رداء (چادر) ہر وقت تنی رہتی ہے یہ ان دعاؤں کا فیاضان ہے کہ ہر میدان میں کامرانیاں قدموں میں بچھ جاتی ہیں۔ قاضی گوہر نے بتایا کہ نیزہ بازی پنجاب کلچر سے جڑا کھیل ہے۔ جو راولپنڈی/ اسلام آباد ‘اٹک ‘ گوجرخان‘ میانوالی اور خوشاب سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں مقبول عام ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں نیزہ بازی کے مقابلے ہوئے لوگوں کا جم غفیر ثابت کررکھا تھاکہ یہ قدیم کھیل مقبولیت کے کس درجے پر ہے! سنگل اور گروپ میں زیادہ لطف کس مرحلے پر آتا ہے اس سوال پہ نوجوان کھلاڑی کا کہنا تھا کہ چار چار کھلاڑی پر مشتمل گروپ کو ایک ساتھ سر پٹ دوڑ کے ساتھ ہدف تک پہنچا ہوتا ہے اور ما شاء اللہ کھلاڑیوں کی مہارت لوگوں کو حیران کر دیتی ہے۔ پوچھا گیا نیزہ بازی کی سرپرستی کس حد تک ہے؟ قاضی گوہر قریشی نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولے… کاش ایسا ہو جائے حکومت کی توجہ کا منظر صرف یہ کھیل ہی نہیں ‘ ہاکی‘ کبڈی‘ تن سازی‘ سنوکر‘ فٹ بال اور والی بال سمیت کئی گیمز ہیں۔ مرکزی وصوبائی حکومتیں کرکٹ کی طرح تمام کھیلوں کو یکساں اہمیت توجہ اور بجٹ دیں تو نیا ٹیلنٹ متعارف ہو نے مدد مل سکتی ہے۔ پاکستان میں نیزہ بازی کے چراغ جلانے میں پرنس آف پاکستان ملک عطائ‘ محمد علی سلطان (حق باہو) اور قمرالزمان خان کی کوششیں اورکاوشوں شامل ہیں۔ یہاں اپنی مدد آپ کے تحت سپورٹس مقابلے ہوتے ہیں اگر حکومت زونل‘ صوبائی اور مرکزی سطح پر اس طرح کے ٹورنامنٹ خود کرائے تو اس سے نہ صرف نیزہ بازی کا کھیل زندہ رہے گا بلکہ اس کے فروغ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔اللہ کریم ہم اور ہمارے رویے احباب نوازی کی بجائے میرٹ کو سپورٹ کرنے والے بن جائیں۔ ایک سوال پر نوجوان کھلاڑی کا کہنا تھا کہ ان کے والد قاضی طاہر قریشی نے اصول اور دیانت کا جو سبق دیا ہے وہ ہر مرحلے میں شامل حال رہتا ہے۔ باباجانی کہتے ہیں کھیل کے میدان میں اصول اور دیانت کو مائنس کرنے سے کھیل اور مقابلہ اپنے حسن سے محروم ہو جاتا ہے۔ نوجوان کھلاڑی پر امید ہے کہ نیزہ بازی کو انشاء اللہ اس کا جائز مقام ضرور ملے گا