اُونچی دکان ، پھیکا پکوان

فرزانہ چودھری
مرض کی تشخیص اور علاج میں معیاری ادویات بنیادی اہمیت کی حامل ہیں جس سے مریض صحت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ادویات کی کوالٹی اور ان کی عدم دستیابی ایک اہم ایشو ہے۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ حکومت کے ادویات کی مفت فراہمی کے دعوے اپنی جگہ لیکن پاکستان میں ہر روز چار سو مریض ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔ یہ بات عدالت میں ثابت ہوئی ہے کہ ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیز کی ادویات محض دور کے ڈھول سہانے کی مانند ہے۔ اگر جدید دور میں بھی کسی چیز کے ساتھ غیر ملکی لفظ لگنا ہمارے لئے اس چیزکے معیاری ہونے کی سند کہلا تی ہے تو پھر اس کا مطلب یہی ہے کہ ہم آج بھی ذہنی طور پر غاروں میں رہ رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق پاکستان میں جتنی بھی ملٹی نیشنل کمپنیز ہیں ان کے پاس انٹرنیشنل سرٹیفکیشن نہیں ہے۔ پاکستان میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے پاس FDL کی منظوری اور یورپین GMP سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ حالانکہ جو دوائی پاکستان میں بنتی ہے اس کی مینوفیکچرنگ پر پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں بہت سی ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیز کی تیار کردہ ادویات معیار کے لحاظ سے پاکستانی میڈیسن کمپنیز کی تیار کردہ ادویات سے کمتر ہیں۔ ملتان روڈ لاہور میں صرف ایک میڈیسن کمپنی کے پاس یورپین GMP سرٹیفکیٹ ہے۔ وہ یورپ میں بھی ادویات ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں ایک میڈیسن کمپنی ہے جن کے پاس WHO کی منظوری کا سرٹیفکیٹ ہے۔ اس میڈیسن کمپنی کی لیب کو منظوری دی گئی ہے۔ باقی اس کے علاوہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے پاس WHO کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں 812 ایلوپیتھک کمپنیز ہیں اور 90 فیصد ادویات پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں جبکہ دس فیصد ادویات امپورٹ کی جاتی ہیں۔ جہاں پنجاب حکومت کا جعلی ادویات کے خلاف کریک ڈاؤن ایک اچھا اقدام ہے وہاں جعلی ادویات کی تشہیر نے لوکل میڈیسن کمپنیز کی 55 ممالک میں ایکسپورٹ کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان میں 596 کمپنیاں ہربل‘ آئیورویدک‘ یونانی‘ طبی کاسمٹولوجی ادویات وغیرہ کی رجسٹرڈ ہوئی ہیں جس میں 240 کمپنیاں لوکل ہیں جبکہ تقریباً 400 کمپنیاں امپورٹڈ میڈیسن کی ہیں جس میں انڈیا‘ چائنہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ خطرناک حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں جتنی بائیولوجیکل میڈیسن اور ویکسین ہیں ان کے ٹیسٹنگ کی سہولت مقامی طور پر دستیاب نہیں ہے۔۔ آج سے دس سال قبل NIH میں اینٹی وینم اور خناق کی ویکسین تیار کی جاتی تھیں اور 18 ممالک میں یہ ویکسین ایکسپورٹ کی جاتی تھی۔ UK میں بھی یہ ویکسین ایکسپورٹ کی جاتی تھیں۔ مگر جب WHO نے پاکستان کو تمام ویکسین مفت مہیا کرنا شروع کر دی تو NIH کو بند کر دیا گیا۔ ٹیسٹنگ لیبارٹریز نہ ہونے کی وجہ سے کسی کو پتہ ہی نہیں کہ ہیمیں جو ویکسین مل رہی ہیں وہ معیاری بھی ہیں یا نہیں۔ یہاں فارماسسٹ ایک ٹول کے طور پر استعمال ہو رہے تھے۔ ویکسینیشن کاسٹیٹس کیا فائدہ مند بھی ہے کہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست کیا ہے؟ سوائے افغانستان اور پاکستان کے ،پولیو وائرس پوری دنیا میں ختم ہو چکا ہے۔ یہاں پولیو کا خاتمہ تاحال کیونکر ممکن نہیں ہو سکا؟ بچے پولیو کے قطرے پی پی کر تھک چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس ملک میں غیر ملکی کمپنیوں کی ایکسپائرڈ ادویات بغیر کسی ٹیسٹینگ کے لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی ہیں حالانکہ امپورٹڈ میڈیسن کا قانون یہ ہے کہ کوئی بھی ادویات چاہے بیرون ملک سے عطیہ ہی کیوں نہ آئی ہوں اس کی سلف لائف سارنٹی 5 فیصد ہونی چاہئے جبکہ وہ 20 فیصد والی ادویات ہوتی ہیں۔ اس لئے جو ادویات دنیا میں کوئی نہیں کھاتا یہاں ٹیسٹنگ لیبارٹری سے بغیر ٹیسٹ کیے مریضوں کو کھلائی جا رہی ہیں۔
ینگ فارماسسٹ آرگنائزیشن کے صدر نور مہر کے مطابق: ’’میڈیسن کے معیار پر کرپشن ہوئی ہے۔ اربوں روپے کی ادویات خریدی گئی ہیں۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال ادویات 200 فیصد سے لے کر ایک ہزار فیصد تک مہنگی خریدی گئی ہیں۔ مثلاً 2016 ء میںجو گولی تین روپے کی خریدی تھی 2017ء میں 37 روپے کی خریدی گئی جبکہ مارکیٹ میں وہ گولی آج بھی 2 روپے کی مل رہی ہے اور دوسری کمپنیوں کی اس میڈیسن کی قیمت تو اس سے بھی کم ہے۔ 50 ادویات کی پروڈکشن پر اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔ پنجاب گورنمنٹ کا کہنا ہے کہ ہم نے ان ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیوں سے خریدی ہیں جن کی سیل بہت زیادہ ہے۔ ادویات مہنگی ہونے سے ہیں نمبر آف میڈیسن پیکٹس کم ہو گئے ہیں جبکہ بجٹ بڑھ گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پانچ ممالک ترکی‘ لندن‘ تھائی لینڈ‘ ملائشیا کی لیب کے ساتھ ادویات کی ٹیسٹنگ معاہدے کئے ہیں۔ جب یہ لیب ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنی کی ادویات کے معیاری ہونے کی منظوری دیں تو اسی صورت میں یہ ادویات پاکستان میں ریلیز ہوں گی۔ کمپنی کو لیب کے اخراجات،1500 ڈالر، ادا کرنا ہونگے۔ ترکی کے ساتھ صحت سے متعلقہ آٹھ منصوبے سائن کئے گئے۔ مثلاًپاکستان میں جس دوائی کا ٹیسٹ 100 روپے میں ہوتا تھا اب وہی ٹیسٹ لندن کی LGC سے 1500 پونڈ میں کمپنی کرائے گی جو ٹینڈر میں حصہ لے گی۔ ٹیسٹ بعد ان کی ادویات ہسپتالوں کو ریلیز ہو گی۔قابل غور بات یہ ہے کہ تھائی لینڈ کا تو ادویات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی لیب سے معاہدہ کرنے کے پس پردہ کیا کہانی ہے؟ پنجاب گورنمنٹ کے اس عمل سے نیشنل میڈیسن کمپنیوں کا راستہ روکا گیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم لاکھ روپے کی دوائی دے رہے ہیں۔ اس کے لئے ہم 1500 پونڈ ٹیسٹنگ فیس کیوں بھریں اور انہوں نے فیصلہ کیا ہے ہم ہسپتالوں کو دوائی سپلائی نہیںکریں گے وہ کمپنیاں پیچھے ہٹ گئیں اور گورنمنٹ نے بڑی بڑی ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیوں سے مہنگے داموں ادویات خرید لی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی ادویات کی پرچیز بڑھانے کیلئے اکثر ڈاکٹروں کو مراعات دیتی ہیں۔ ڈاکٹر سستی دوائی کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنی کی مہنگی دوائی لکھتے ہیں۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ ہم نے ٹیسٹنگ لیبارٹری کو اپ گریڈ کیا۔ انہوں نے لاہور کی DPL کو اس طرح اپ گریڈ کیا کہ اس کے 62 لوگ نکال کر نئے لوگ کنٹریکٹ پر بھرتی کر لئے ہیں اور کہا ہے ہم نے پرانا کلچر تبدیل کر دیا ہے۔ حالانکہ ٹیسٹنگ کیلئے تجربہ کار سٹاف کی ضرورت ہوتی ہے۔ فریش سٹاف کی فرانزک لیبارٹری کے ماہرین سے ٹریننگ کرائی گئی۔ یہ عمل تو بالکل ایسا ہے کہ ڈاکٹر کی تربیت انجینئر سے کروائیں۔ فرانزک لیب تو لاشوں‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل ڈیٹا اور جعلی چیک پر کام کرتی ہے۔ اس لیب میں ایک چھوٹا سا سیکشن Taco collage پر کام کرتا ہے۔
حقیقت یہ کہ پاکستان کی نیشنل میڈیسن کمپنیاں اپنی معیاری ادویات کی بدولت تیزی سے گروکر رہی تھیں۔ پاکستان میں استعمال ہونے والی ٹوٹل ادویات کا 60 فیصد میڈیسن قومی کمپنیاں اور 40 فیصد ملٹی نیشنل بنا رہی ہیں۔ جبکہ اس سے قبل 50‘ 50 فیصد کی شرح تھی۔ جب پنجاب میں جعلی ادویات کی مہم کی وجہ سے نیشنل ادویات بدنام ہوئیں تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کو space مل گئی۔ انہوں نے اس خلا کو پُر کیا اور اپنی ادویات مارکیٹ کر دیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ڈاکٹروں اور فارماسسٹس نے پندرہ ممالک کی ہیلتھ منسٹری بنائی ہے۔ جس میں سوڈان‘ اردن‘ ویت نام‘ کینیا‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ کینیڈا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ FDA کینیڈا کا سربراہ سلطان غنی پاکستانی ہے جبکہ اپنے ملک پر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا اور ان پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ پاکستان کی بہت سی نیشنل کمپنیاں ترکی‘ دبئی‘ بنگلہ دیش‘ سنٹرل ایشیا میں اپن کاروبار شفٹ کر رہی ہیں۔ نیشنل میڈیسن انڈسٹری کو حکومتی تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ ملک سے باہر جا رہا ہے۔ اگر جعلی ادویات کی بات کی جائے تو پاکستان میں صرف 0.5 فیصد جعلی ادویات ہیں جبکہ انڈیا میں 4.5 فیصد اور چائنہ میں 3.5 فیصد جعلی ادویات بنتی ہیں ۔ نیشنل کمپنیوں کی معیاری میڈیسن کی ایکسپورٹ متاثر ہو ئی جو کہ 50 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔ دبئی میں 15 فیصد اور کینیڈا میں 28 فیصد فارماسسٹ کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 27 نومبر 2013ء کو ڈرگ اتھارٹی نے ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافے کا نوٹیفیکشن جاری کیا۔ دو دن بعد 29 نومبر 2013ء کو اس وقت وزیراعظم نوازشریف کے کہنے پر نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا۔ ساری کمپنیاں ڈرگ اتھارٹی کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا آپ ہم سے تعاون کریں تو ڈرگ اتھارٹی نے ان کو مشورہ دیا آپ سندھ ہائی کورٹ سے سٹے لے لیں۔ ادارے کا نمائندہ عدالت میں پیش ہی نہیں ہو گا۔ میڈیسن کمپنیوں نے عدالت سے سٹے لے لیا۔ آج 2017ء ہے ادویات میں 15 فیصد اضافہ آج بھی چل رہا ہے۔
عوام مہنگے داموں دوائی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ان کو علم ہی نہیں کہ دوائی کی اصل قیمت کیا ہے۔ ڈرگ انسپکٹر دوائی کی اصل قیمت چیک نہیں کر سکتا کیونکہ محکمہ صحت کی کوئی آفیشل ویب سائٹ نہیں ہے۔ اگر ویب سائٹ ہوتی تو لوگ دوائی کی اصل قیمت معلوم کر سکتے۔ ڈرگ ایکٹ کا سیکشن 8 یہ کہتا ہے کہ ہر چھ ماہ بعد جتنی ادویات رجسٹرڈ ہوں ان کی قیمت شائع ہونی چاہئیں ۔ 1981ء کے بعد سے ڈارپ نے اس حوالے سے کام نہیں کیا۔ جب ان کے بارے میں ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا گیا تو ڈارپ نے 81 ہزار رجسٹرڈ ادویات میں سے صرف 10 ہزار رجسٹرڈ ادویات کی انفارمیشن ویب سائٹ پر دی مگر ان کی قیمت ویب سائٹ پر نہیں دی گئی۔ ہر سال کس دوائی کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوا اس کا بھی ویب سائٹ پر کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے مالک ڈارپ کے CEO بنتے رہیں گے تو وہ ریکارڈشو نہیں کریں گے۔ حقیقت میں سسٹم اور میکانزم کو ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ادویات کی صحیح قیمت کی انفارمیشن ویب سائٹ پر دے دے تو یہ بھی عوام کی بہت بڑی خدمت ہو گی‘‘۔
پنجاب گورنمنٹ نے ایک ایسی ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنی سے ادویات کا MOU سائن کیا ہے جس نے پاکستان میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے اور اس کرپشن کو عدالت میں بھی بے نقاب کیا گیا۔ ان کے انجکشن جراثیم زدہ اور اس میں شیشے کے ذرے تھے۔ مزید یہ کہ یہاں ٹیسٹ لیبارٹریز اور ڈرگ انسپکٹر پرائیویٹائز ہو رہے ہیں۔ پنجاب حکومت موبائل ہیلتھ یونٹ خرید رہی ہے۔ کچھ سال پہلے 7 کروڑ روپے میں ایک موبائل ہیلتھ یونٹ خرید کیا گیا جبکہ اب 80 کروڑ روپے میں ایک موبائل ہیلتھ یونٹ خریدا جا رہا ہے۔ 16 ارب روپے کے 20 موبائل ہیلتھ یونٹ خریدے جا رہے ہیں اور ان موبائل ہیلتھ یونٹ کیلئے اربوں روپے کی ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیوں سے ادویات خریدی جائیں گی جن کے ٹینڈر ہو چکے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کی دوائی کے پی کے کی نسبت پنجاب نے مہنگے داموں خریدی اور پھر اسے 12 کروڑ روپے کا TCS کے نام پر ٹیکہ لگایا گیا کہ دوائی مریض کے گھر پہنچے گی۔ مگر ادویات گھر نہیں پہنچ رہی ہیں۔ 85 کروڑ روپے کی یہ ادویات ضائع ہو رہی ہیں۔ یہ ادویات بروقت مریضوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا علاج متاثر ہو رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فروری 2017ء میں بننے والے ہیپاٹائٹس آرڈیننس سے ڈاکٹر حضرات متاثر ہوں گے۔ اس آرڈیننس کے مطابق اگر ڈاکٹر یا نرس کی غلطی سے ہیپاٹائٹس کا مرض دوسر ے شخص میںٹرانسفر ہو جاتا ہے مثلاً اگر بلڈ رپورٹ صحیح نہیں ہے۔ بے شک وہ غلطی لیب کی ہے مگر اس کا ذمہ دار ڈاکٹر یا نرس کو ٹھہرایا جائے گا۔ اس غلطی کی سزا 30 لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال قید ہے اور جو ڈاکٹر کسی مریض کی بیماری کے بارے میں انفارمیشن لیک کرتا ہے اس کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔ دوائی کے ڈبے پر مس پرنٹنگ کی صورت میں مینوفیکچر کو تین سال قید ہو گی۔ ان غیر فطری سزاؤں سے ڈاکٹر کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس کو کالا قانون کہا جا رہا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر اظہار سمجھتے ہیں: ’’میڈیسن کے حوالے سے پنجاب حکومت کی پالیسی ٹھیک ہے مگر ایک طرف حکومت پورے کا پورا نظام خود مختاری کی طرف لے کر جا رہی ہے تو دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی کے عمل کو سنٹرلائزڈ کیا جا رہا ہے۔ اس سے ہسپتالوں میں مریض ایل پی کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔ پچھلے سال کی نسبت اس سال مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بیماریوں کے پیش نظر علاج کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہسپتالوں کے اندر کی صورتحال بہت گھمبیر ہوتی نظر آتی ہے۔ سنٹرلائزڈ میڈیسن کی خریداری سے ہسپتال کی لوکل ترسیل ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ خریدی گئی ادویات ہسپتالوں کی ضرورت کے مطابق نہیں ہیں مگر زبردستی ہسپتالوں کو ادویات اٹھانے کو کہا جا رہا ہے‘‘۔

ای پیپر دی نیشن