اسلام آباد (عترت جعفری) پیپلز پارٹی میں انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے قیادت پر سینیٹ میں زیرغور آئینی ترمیمی بل کی حمایت کرنے کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے اور پارٹی کے اندر بعض رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ اگر ترمیمی بل منظور نہ ہونے کی صورت میں اگر انتخابات میں تاخیر ہوئی تو اسکا واحد ذمہ دار پی پی پی کو ٹھہرایا جائیگا جس سے سیاسی نقصان زیادہ ہوگا۔ پی پی پی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر عمومی اتفاق رائے ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا انعقاد اپنے مقررہ وقت پر ہوجانا چاہئے اور جمہوری طور پر یہی ملک کی درست سمت ہے۔ سینیٹ میں اس وقت جو پارٹی پوزیشن ہے اسکے مطابق مسلم لیگ (ن) کے 27 ‘ پی پی پی کے 26‘ اے این پی 6‘ بلوچستان نیشنل پارٹی ایک‘ بلوچستان پارٹی عوامی پارٹی (ایم) کے ایک‘ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے 2 ‘ فاٹا کے 10‘ جماعت اسلامی ایک‘ جے یو آئی 5 ‘ ایم کیو ایم 8 ‘ نیشنل پارٹی 3 ‘ مسلم لیگ فنکشنل ایک‘ تحریک انصاف 7 اور پی ایم اے پی کے 33 سینیٹرز ہیں۔ اس وقت واضح طور پر حکومت اور اسکے اتحادی ارکان کی تعداد 38 بنتی ہے جبکہ عمومی طور پر فاٹا کے ارکان بھی حکومت کے ساتھ جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتوں ارکان کا تعلق کے پی کے سے ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حلقہ بندیوں کا معاملہ اسی طرح لٹکا دیا تو انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہو سکتا ہے اور یہ ایشو عدلیہ میں لازمی طور پر چلا جائیگا۔ اس دوران مردم شماری کے مکمل نتائج بھی سامنے آجائیں گے تو نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات کا انعقاد میں آئینی رکاوٹ آجائیگی۔ اس تناظر میں پی پی پی کی طرف سے سینیٹ میں زیرغور آئینی ترمیمی بل کی حمایت بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ پی پی پی کے اندر جاری اس بحث کے بارے میں رہنما کسی قسم کی بات کرنے سے گریزاں ہیں تاہم انعقاد کے بروقت انعقاد پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ جب ایک ذمہ دار حلقہ سے پوچھا گیا کہ آیا پی پی پی نے سینیٹ کے ترمیمی بل کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ مشاورت اور بحث ہو رہی ہے۔ نتیجہ سامنے آئیگا۔ ایسے قرائن دکھائی دیتے ہیں کہ پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں خوشگوار لمحات پلٹ سکتے ہیں جن میں حکومت کو مطلوبہ تعداد میں حمایت میسر آسکتی ہے۔