ختم نبوت کا مسئلہ اور حکومتی اَنا …؟

Nov 25, 2017

انتخابی اصلاحات کے نام پر پاس کئے جانے والے الیکشن ایکٹ 2017ء میں ختم نبوت کے حلف نامہ کو تبدیل کرنے کے حوالے سے جو تحفظات اور خدشات سامنے آئے وہ ہر مسلمان کے لئے تشویشناک ہونے کے ساتھ ساتھ اشتعال انگیزی کا سبب بھی بنے۔ جس کی وجہ سے سارے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ احتجاجی بیانات اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پرامن رہنے والے اولیاء و صوفیاء کے وارث درود و سلام پڑھنے والے اہلسنت بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ کے ایک گروپ کے قائد ڈاکٹر اشرف آصف جلالی نے لانگ مارچ شروع کیا اور اسلام آباد میں پہنچ کر دھرنا دیا جو حکومت سے مذاکرات اور چند شرائط کے وعدے کی تکمیل پر اختتام پذیر ہوا۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے میں تحریک کے دوسرے گروپ نے شرکت نہیں کی بلکہ ازخود 7 نومبر 2017ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ گزشتہ دھرنوں کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اختیار کی۔ ڈی چوک اسلام آباد جانے اور اس راستے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تصادم کرنے کی بجائے فیض آباد میں دھرنا دیا۔ کیونکہ اہلسنت کبھی پرتشدد کارروائی میں ملوث نہیں رہے اور تخریب کاری اور دہشت گردی کے راستے کو نہیں اپنایا اس لئے حکومت نے اس کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے وقتی اشتعال کا نتیجہ سمجھا اور یہ فرض کر لیا گیا کہ دو چار دن کی نعرہ بازی اور شور شرابہ کے بعد یہ ہزاروں کا اجتماع سکڑ کر چند سو کی تعداد تک پہنچ جائے گا اور دھرنے کے قائدین شرمندگی اور ندامت سے بچنے کے لئے منت سماجت کر کے دھرنا ختم کرنے کا کوئی باعزت راستہ تلاش کر لیں گے لیکن حکومتی اندازے بالکل غلط ثابت ہوئے اور ان کی بے تدبیری کی وجہ سے صورت حال سنگین سے سنگین تر ہوتی چلی گئی۔
دھرنا دینے والوں کا مؤقف یہ ہے کہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کر کے امت مسلمہ کے عقائد کا مذاق اڑایا گیا۔ عقیدہ ختم نبوت پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔ قادیانی عقائد کو تحفظ دینے کے راستے ہموار کئے گئے۔ اس غلطی کو حکومت نے تسلیم کر لیا۔ عوامی دباؤ کے تحت یہ ترمیم واپس لی لیکن یہ سنگین قدم اٹھانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ قانون سازی کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری وزیر قانون پر عائد ہوتی ہے اس لئے ان کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے کہ اس کے بعد دیگر امور پر مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کی جا سکتی ہے لیکن حکومت نے اس مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔
حالانکہ ڈان لیکس سکینڈل کے نتیجے میں حکومت کے اہم ترین ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید سے استعفا لے لیا گیا تھا۔ اسی طرح نہال ہاشمی اور مشاہد اللہ وغیرہ کو بھی دباؤ کے تحت قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ اب جبکہ اطلاعات کے مطابق زاہد حامد خود بھی مستعفی ہونے پر آمادہ ہیں تو حکومت ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور معاملات نہایت تشویش ناک صورت حال اختیار کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ہائیکورٹ نے بنیادی حقوق کے تحفظ کے نام پر دائر کی گئی رٹ کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ یہ دھرنا ختم کرائے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لے کر پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آئین کی بالادستی قائم کرنے کے لئے اس معاملے پر حکومت سے جوابی طلبی کر لی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ازخود نوٹس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مستقبل میں عوامی مظاہروں‘ احتجاج‘ لانگ مارچ‘ ریلیوں اور دھرنوں کے حوالے سے انتہائی انقلابی حیثیت کا حامل ہو گا۔ آئندہ انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے افراد اگر احتجاج اور مظاہروں کے دوران سپریم کورٹ کی رولنگ کے خلاف چلیں گے تو توہین عدالت کے مرتکب قرار پا کر انتخابات کے لئے نااہل ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کہ دھرنا دینے والے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا زیادہ لحاظ نہ کریں لیکن آنے والے وقت میں سیاست میں حصہ لینے والے اس کے اثرات سے بے نیاز نہ رہ پائیں گے۔اس سے پتہ چلا کہ حکومت کی نظر میں دھرنے کا پرامن حل تلاش کرنا‘ الیکشن ایکٹ 2017ء میں علماء و عوام کے تحفظات کے خدشات کو دور کرنا اور عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا اتنی اہمیت کا حامل نہیں جتنا میاں نواز شریف کے پیشانی کے بل دور کرنا ہے۔ اگر حکومت کے لئے اتنے اہم ترین نوعیت کے مسئلہ پر ایک وزیر زاہد حامد سے استعفا لینا سبکی کا باعث ہے تو سیاسی معاملات میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب پوری کابینہ یہ تحلیل کر دی جاتی ہے۔ دوران حکومت بعض اوقات مختلف اسباب کے تحت کسی بھی بحران یا افراتفری کے بغیر کابینہ کی تشکیل نو (Re Shuffeling)کی جاتی ہے۔ قلمدان وزارت (Port Folioes) تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔ کچھ سابقہ وزراء کو برطرف کر کے نئے وزیر کابینہ میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر اس وقت کابینہ تحلیل کر دی جائے اور تشکیل نو کے نام پر زاہد حامد کو نئی کابینہ میں کم از کم فوری طو پر شامل نہ کیا جائے تو دھرنا دینے والوں کا مطالبہ بھی پورا ہو جائے گا‘عدالتی احکام کی تعمیل بھی ہو جائے گی‘ ملک میں افراتفری کی کیفیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے‘ ہار ماننے کی ندامت سے بچنے کی صورت بھی نکل آئے گی۔

مزیدخبریں