یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ ابھی بھی ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں ادب اور ادبی سرگرمیاں یاد ہیں۔ نومبر کے مہینے میں ملک کے سب سے بڑے شہروں ،یعنی لاہور اور کراچی میں دو عالمی پروگرام منعقد ہوئے جن کا تعلق ادب اور کلچر سے ہے۔ لاہور میں مشہور انقلابی شاعر فیض احمد فیض سے متعلق " عالمی فیض فیسٹول" اور کراچی میں " عالمی اردو کانفرنس "۔ ایسے زمانے میں جب ملک میں ہر طرف سیاست ، معیشت ، امن و امان کے مسائل اور افراتفری کا عالم ہے۔ان حالات میں ادب کا یاد رہنا اور اتنے بڑے بڑے بین الاقومی پروگراموںکا انعقاد کوئی معمولی بات نہیں۔ ادب زندگی کا عکاس ہے۔ ادیب شاعر ، نقاد اور اہل دانش کسی بھی معاشرے کے لیئے اتنے ہی ضروری ہیں جتنے اس کے لیڈر ، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایک تخلیق کار ہی وہ انسان ہے جو ہر زمانے میں معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے۔ اس کی رفتار کو محسوس کرتا ہے اور پھر اسے اپنی تحریر میں یعنی شاعری یا نثر میں لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آج کے زمانے میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے ادب میں بھی بہت سی جہتیں پیدا کردی ہیں۔ ماضی میں لائبریری اور کتاب یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے ایسی ادبی بیٹھکوں اور اجتماعات ان ادبی تخلیق کاروں کا پیغام پہنچانے کے لیئے لازمی سمجھے جاتے تھے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اب شاید ان ذرائع کی ضرورت اتنی محسوس نہیں ہوتی۔ ان میں سے بیشتر کاوشیں مختلف ویب سائٹس پر موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر بڑی سی بڑی لائبریری تک طلبا اور شائقین ادب کے رسیا لوگوں کیلئے اپنی اپنی پسندیدہ تخلیق تک رسائی ممکن ہوگئی ہے۔ کتابیں ، فلمیں ،ادبی مقالے ، تقریریں ، سب ہی آپ کو اس میڈیا پہ باآسانی مل جائیں گے لیکن اس سب کے باوجود بھی ایسی بین الاقومی اور قومی کانفرنسز کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جن میں ادیب ، شاعر اور نقاد ایک جگہ جمع ہوکر لوگوں تک اپنے خیالات پہنچا سکیں اور خود آمنے سامنے ہوکر تبادلہ خیال کرسکیں۔اس کی ضرورت اس لیئے بھی محسوس ہوتی ہے کہ ایک ہی زبان میں مختلف ملکوں میں مختلف حالات کے تحت تخلیق کے زاویئے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کے تجربات اپنے اپنے معاشروں کے لحاظ سے الگ الگ ہوتے ہیں اور وہ اسی لحاظ سے اسے اپنی اپنی تخلیقات میں سموتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے اردو ادب کے تخلیق کار زبان تو ایک ہی استعمال کرتے ہیںلیکن ان کے مختلف تجربات کی وجہ سے ان کا ادب چاہے وہ شاعری ہو یا نثر مختلف نوعیت کا سامنے آتا ہے۔ اسی طرح ایک پاکستانی ادیب برطانیہ ، یورپ ، کینیڈا ، یا عرب ممالک میں رہتا ہے وہ مختلف معاشرے میں رہنے کی وجہ سے کچھ نئی جدتیں اور کہانیاں اپنے فن پاروں میں پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان ہماری قومی زبان ہے اور بین الصوبائی رابطے کی زبان ہے بلکہ اب یہ لاکھوں پاکستانیوں سے رابطے کا باعث بھی ہے جو افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک مختلف معاشروں میں اپنا پنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اردو زبان پاکستان اور تاریکین وطن کے درمیان بنیادی رابطے کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان تارکین وطن کی اس ملک کی معیشت اور استحکام میں کتنی زیادہ حیثیت ہے۔ انہی کے ذریعے زرمبادلہ بھی آرہا ہے اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر میں مدد ملتی ہے جو ملک کو جدید زمانے میں ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دونوں عالمی پروگراموں میں قومی اور بین الاقومی سطح پر آنے والے اردو ادیبوں اور شاعروں نے یہ احساس دلایا ہے کہ واقع ہماری قومی زبان اب ایک بین الاقومی زبان بن چکی ہے۔ اس کے فروغ کیلئے دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے ،ذات ، پات سے بلند ہوکر یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ لاہور اور کراچی کے لیئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر ملک اور دنیا کے کونے کونے سے تخلیق کاروں کو جمع کرنے میں کامیاب رہے۔ جس میں ان کی سوچ اور فکر کو ایک ہی پلیٹ فارم پر سننے کا موقع فراہم کیا۔ یہ کانفرنس جہاں اردو ادب کے فروغ کے لیئے بہت اہم ہیں۔وہیں پر اس زبان میں نئی سوچ اور تصورات میں لانے کا بھی ذریعہ بنے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ معاشرتی مسائل اور ان کے حل کیلئے اعلی دماغوں کو ایک ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے اور وہ ان کے حل کی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔