صدر مملکت عارف علوی نے بھی تصدیق کر دی کہ مہنگائی سے عوام پریشان ہیں گورنر سٹیٹ بینک نے بھی تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں معاشی ترقی کم ہو گئی ہے، ترسیلات زرکی بڑی مالیت کیلئے حوالے کا چینل استعمال ہو رہا ہے وزیراعظم نے بھی دل کی بھڑاس نکالی ہے کہ انہیں نوازشریف پر رحم ہو گیا کابینہ نے تو کہا تھا نواز کو نہ جانے دیں، نوازشریف کا سمدھی، دونوں بیٹے فرار ہیں، شہبازشریف کا داماد اور بیٹا بھاگا ہوا ہے اس کی اپنی گارنٹی کون دے گا، ڈیزل اور کشمیر کمیٹی پر بکنے والا لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے‘ اس کی قیمت لگا کر جو مرضی فتویٰ لے لیں، بلاول کی تھیوری پر آئن اسٹائن کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی مک مکا کر لوں تو کوئی شور نہیں ہو گا عمران خان نے سارے مخالفین کی اصلیت بتا دی تاہم ان کا کہنا ہے عدلیہ یہ تاثر دور کرے کہ طاقتور اور کمزور کیلئے الگ قانون ہے اس وقت ایک دوسرے کو بار بار ننگا کرنے کی بجائے سیاسی ٹمپریچر نیچے لانے کی ضرورت ہے لفظ ’’ڈیزل‘‘ کے استعمال نے مولانا کے دل میں وزیراعظم کیلئے انتقام کا دیا روشن کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں لفظی جنگ مزید تیز ہو گئی ہے نوازشریف کوئی میدان جنگ نہیں تھا کہ یہ کہا جاتا کہ عدالت کا فیصلہ حکومت کی فتح ہے عدالتی فیصلے کی من مانی تشریح کس لئے کی جاتی ہے سات ارب سے بات 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر ختم ہوئی۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور پوائنٹ اسکورنگ سے عام پاکستانی کو کیا فائدہ؟ مولانا نے آزادی مارچ کو ٹکڑوں میں بانٹ کر عوام کیلئے وبال جان پیدا کیا ہے سیاسی شطرنج سے مہرے متحرک ہو گئے ہیں ہر کوئی اپنا ’’الو سیدھا‘‘ کرنے میں لگا ہے ق لیگ اور ن لیگ باہمی شدید بیر ختم کر کے گرینڈ مسلم لیگ کی طرف جا رہی ہیں محلوں کی عورتیں گالیوں میں ایک دوسرے کی ایسی تیسی کرنے کے بعد پھر جپھیاں ڈالتی دکھائی دیتی ہیں وزیروں مشیروں کو آئے دال کا بھائو معلوم نہیں‘ ریلیف کا دور دور تک نام و نشان نہیںمعاشی پہیہ پنکچر کی دکان پر پڑا ہے لیکن حکومت کے نزدیک معیشت درست سمت چل پڑی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ سر پلس ہو گیا ہے جبکہ 2 کروڑ پاکستانیوں کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت نہیں سکول کالجوں میں پینے کا صاف پانی نہیں۔ ٹماٹر ایک سال میں 264 روپے کلو مہنگا ہو اہے پچھلے سال ان دنوں ٹماٹر کی قیمت 36 روپے کلو تھی۔ چونکا دینے والی باتیں چیئرمین نیب کی ہیں کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے کوئی یہ نہ سمجھے حکمران جماعت بری الذمہ ہے دوسرے محاذ کی طرف جا رہے ہیں یکطرفہ احتساب کا تاثر دور کریں گے جو کریگا سو بھریگا، 15 ماہ میں جو کرپشن ہوئی اس کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ وزیراعظم کے غصہ کی وجہ ہواؤں کا بدلتا رخ تو نہیں، اتحادیوں کے بیانات کے بعد ’’ایک پیج‘‘ والی باتیں بھی قصہ پارینہ بنتی نظر آ رہی ہیں دھرنے، شاہراہیں بند کرنے کے بعد ضلعی سطح پر جلسوں کا مطلب ہے مولانا اوپر سے نیچے اتر رہے ہیں نیچے سے اوپر جانا کامیابی جبکہ اوپر سے نیچے اترنا ناکامی سمجھی جاتی ہے مولانا کے ویسے اور ایسے کا مطلب بھی جلد واضح ہو جائے گا عام شہری کا سوال ہے سبزیاں پہنچ سے باہر کیوں ہیں؟ سبزی کی دکانوں سے سرکاری نرخ نامے غائب ہیں پیاز 100 روپے کلو ہے شملہ مرچ 300، ادرک 400، لہسن 300 روپے کلو، سٹاک مارکیٹ کے بروکرز کی طرح منڈیوں کا ریموٹ کنٹرول بھی آڑھتیوں کے ہاتھوں میں ہے محکمہ زراعت، خوراک اور مارکیٹ کمیٹیاں ان کی ہم جولیاں ہیں مسائل اور بھی بہت ہیں مگر مہنگائی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت بھی بے اثر ہو گئی ہیں معیشت کی خرابی کے مجرم نیب کے ہتھے چڑھنے چاہئیں پہلے نمبر پر آڑھتیوں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ 15 ماہ میں باہر سے پیسہ تو خاک آتا برین ڈرین شروع ہو گیا ہے دیانتدار اور ایکسپرٹ لوگ اب تک دکھائی نہ دئیے۔ اسد عمر خزانہ کیلئے نااہل تھے، لیکن پلاننگ کیلئے اہل ہو گئے مافیاز نے معیشت کو گھیرے میں لے رکھا ہے اب شیخ رشید ہی نہیں کئی اور الشیخ پیش گوئیوں پر اتر آئے ہیں۔ وزیراعظم ایسے لوگوں کے درمیان کھڑے ہیں جو انہیں مفاہمت کی بجائے سیاسی محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے ہیں نئی سیاسی صف بندی ہونے جا رہی ہے نواز شریف کو 4ہفتوں میں واپسی یا طویل انتظار‘ ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں‘ سندھ میں اتحاری حکومت سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں‘ بلاول بھٹو زرداری نے سندھ کابینہ کی خراب کارکردگی پر کڑی تنقید کی ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے اشارے بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں حکومتی ناتجربہ کاری عیاں ہے وزراء مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں مختصر سی اپوزیشن نے وزیراعلیٰ محمود خان کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں بلوچستان میں پاک ایران آئل ریفائنری کے حکومت نے شراکت داری کی شرط عائد کی ہے۔ آئین کے تحت تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش اور نکلنے کی صورت میں بلوچستان اور وفاق کا برابر کا حصہ ہو گا گڈانی میں 1800ایکڑ اراضی 1996ء میں الاٹ ہوئی لیکن ریفائنری کے قیام کیلئے کوئی کام نہیں ہو سکا اب تک صوبے کی پسماندگی اور احساس محرومی کی باتوں کے سوا کچھ سامنے نہیں آیا۔ پنجاب میں کپاس کی پیداوار میں 35فیصد کمی ہوئی ہے گندم ‘ چاول اور مکئی کی پیداوار بھی ہدف سے کم ہے کسانوں کا مطالبہ ہے گندم کی امدادی قیمت 1500 جبکہ گنے کی 250روپے من مقرر کی جائے جنوبی پنجاب کا بڑا حصہ زراعت سے منسلک ہے کسان بدحال ہو گا تو اس کی سیاست سے جڑی امیدیں دم توڑنا شروع ہوں گی۔ مولانا فضل الرحمن کا مارچ منزل کو عبور کرنے سے پہلے دم توڑ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کی نشستیں خالی ہیں کمیشن کے چیف بھی 5دسمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں49 رُکنی وفاقی کابینہ کی تازہ فہرست سامنے آچکی ہے ہر کوئی انتشار خلفشار کا حل ازسر نو انتخابات تجویز کرتا ہے70 سال میں انتخابات تو دس گیارہ مرتبہ ہو چکے ہیں نتیجہ سب کے سامنے ہے وہی لوگ وہی باتیں وہی وعدے وہی سبز باغ وہی نعرے حکومت کے اصل ستون پٹواری‘ کلرک اور تھانیدار ہی رہے ہیں سرکاری ملازمین کے آئے روز دھرنوں کا علاج بھی سوچنا ہو گا۔
حکومت کے اتحادی ناراض ہیں یا پھر نئی ڈیل چاہتے ہیں‘ نئی صف بندیوں اور جوڑتوڑ کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو رہا ہے وزیراعظم کا عدلیہ سے متعلق بیان مناسب نہیں تھا‘ چیف جسٹس نے نرم الفاظ میں حقائق بیان کئے۔ جنرل مشرف کے خلاف آئین و قانون کے مطابق فیصلہ آنا عدلیہ کا انقلابی قدم ہو گا۔ ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے تو امیر و غریب‘ طاقتور و کمزور سب کا احتساب یکساں ہونا چاہئے نہ تھانہ کلچر بدلا نہ پٹواری راج‘ ایک خاتون اے سی کو 36پٹواریوں کے ٹرانسفر آرڈر جاری کرنے کی پاداش میں انتقامی رخصت پر جانا پڑا پٹواری اور تھانیدار بدستور طاقتور ہیں۔ سیاست میں ان اور آئوٹ ہونے جا رہا ہے بے لچک رویہ حکومتی پہیہ نہیں چلنے دے رہا۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے نیب قانون میں اصلاحات سے گریز کیا اور اب بھگت رہی ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے بھی یہی غلطی کی تو اسے بھی بھگتنا پڑے گا۔ مقدمات سالہا سال لٹکائے جاتے ہیں۔ نجی شعبے لے گزشتہ سال کے 223ارب روپے کے مقابلے میں رواں سال منفی 4.1 ارب روپے قرض لیا‘ زرعی پالیسی کی سختی سے معاشی سرگرمیاں کم اور اضافی ٹیکسوں سے حوصلہ شکنی ہوئی‘ صنعتی یونٹس بند ہو رہے ہیں۔ ٹیکسوں سے آمدنی کا ہدف 5.5کھرب روپے ہے پہلے 170ارب روپے کا شارٹ فال ہے آئی ایم ایف کو اندازہ ہے کہ ٹیکس 5270 ارب سے زیادہ جمع نہیں ہو سکیں گے جبکہ ماہرین کے نزدیک 4500ارب بھی جمع ہو گئے تو غنیمت ہو گا۔ 15ماہ یوٹرن لینے میں گزر گئے 24وفاقی وزراء 4وزرائے مملکت‘ 5مشیر اور 15معاونین خصوصی کی پراگرس رپورٹ سامنے لائی جائے ہماری کابینہ 49جبکہ مودی کابینہ 58افراد پر مشتمل ہے۔ بجلی ایک روپے 83پیسے مہنگی ہونے سے زرعی ٹیوب ویلوں کے بلوں میں بھی اضافہ ہوا ہے پی ٹی آئی کے ابتدائی 13ماہ میں قرضوں میں 35فیصد اضافہ ہوا ہے پی پی اور نون لیگ کے 10سال کے قرضہ جات کا 40فیصد حصہ 13 ماہ میں لیا پہلی بار ملک کا کرنٹ خسارہ سر پلس میں آیا ہے ملک کی مجموعی آمدن اور تمام تر اخراجات کے مابین فرق کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ ہوتا ہے خسارہ سرپلس ہونے سے روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے عمران خان آئے تو خسارہ 19ارب ڈالر تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر نہیں تھے ڈالر میں ٹرانزیکشن سے ملکی کرنسی کی قدر کم ہو رہی تھی۔