اکرم کنجاہی سینئر بینک کار ہیں، اس کے باوصف اردو کے ممتاز شاعر، نقاد، محقق، مقرر اور سکالر ہیں۔ اب تک ان کی 15 کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں چار شعری مجموعے اور تنقید و تحقیق پر پانچ کتابیں شامل ہیں۔ ’’مابعد جدیدیت اور چند معاصر متغزلین‘‘ رواں برس شائع ہونے والی تنقید پر ان کی پانچویں کتاب ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اچھی تنقید وہ کرسکتا ہے جو خود تخلیق کار ہو۔ اکرم کنجاہی نے تنقید لکھنے سے پہلے بطور شاعر اپنے آپ کو منوایا۔
تنقید کے حوالے سے چند نام ہمارے سامنے آتے ہیں جن میں ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر سہیل احمد خان، انیس ناگی، وقار عظیم، ڈاکٹر انور سدید، محمد علی صدیقی و دیگر جبکہ بھارت میں معروف تنقید نگاروں ڈاکٹر قمر رئیس، شمیم حنفی، وارث علوی، گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی شامل ہیں۔ جدید تنقید نگاروں میں کراچی کے اکرم کنجاہی کا نام اہم ہے۔ جنھوں نے ادبی تنقید نگاروں میں اپنا مقام بنایا اور تسلیم کرایا۔ اکرم کنجاہی اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے انصاف کر رہے ہیں۔ قبل ازیں ’’غزل کہانی‘‘ پر ان کی تنقیدی کتاب شائع ہو چکی ہے۔ اس میں عہد بہ عہد اردو غزل کی تاریخ بیان کی گئی۔ ان کی تازہ ترین تنقیدی کتاب میں چار معروف شعرا پر تنقیدی مضامین شامل ہیں جن میں انور شعور، جان کاشمیری، نسیم سحر اور ڈاکٹر منور ہاشمی شامل ہیں۔ یہ چاروں اردو غزل کے اہم ستون ہیں۔ شفقت رسول مرزا نے تقریظ میں لکھا ہے کہ ’’یہ کتاب اکرم کنجاہی کی بصیرت افروز مضامین کا ایسا مجموعہ ہے، جو اسکے تحقیقی و تنقیدی مزاج اور رائے پر اعتبار قا ئم کرنے کیلئے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اکرم کنجاہی اردو ادب کا ایسا تخلیقی و تنقیدی حُسن و جمال ہے کہ جس کے نام کی بہاروںکا راج تادیر اردو ادب کے فکشن پر رہے گا‘‘ اکرم کنجاہی نے لکھا کہ ’’انور شعور نے معاشی اور سماجی عدم مساوات سے جنم لینے والی ناانصافیوں پر بھی لکھا ہے۔ ان ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی کہ کوئی باضمیر انسان معاشرے میں پائی جانے والی اس بے چینی پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام میں اجر اور اجیر کے رشتے کو موضوع سخن بنایا ہے۔ ان کے دو اشعار ملاحظہ کریں:۔؎
دیکھ لیا شعورؔ کو زندہ دلی کے باوجود
ایک اداس نسل کا ایک اداس آدمی
………
مانگتا ہوں روز مرنے کی دعا
رائیگاں میری دعا جاتی ہے روز
جان کاشمیری گوجرانوالا کے رہائشی ہیں۔ ان کی شاعری پر اکرم کنجاہی کا لکھنا ہے کہ ’’جان کاشمیری کی شاعری کا مرکز و محور انسان کی ذات ہے۔ وہ اس دائمی صداقت کو نہ صرف ادب بلکہ ادب کے ذریعے معاشرے اور سماج کی روح بنانا چاہتے ہیں کہ انسان عظیم ہے‘‘
ان کا ایک شعر ہے:۔؎
جانؔ اتنا ہے فلسفہ زندگی اور موت کا
ایک سرائے سے نکل کر دوسری میں آ گئے
نسیم سحر کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ اکرم کنجاہی کے خیال میں نسیم سحر نئے دور کے نئے مسائل کو بیان کرتے وقت غزل کی حقیقی روح کے احیا کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ نسیم سحر کے بہت سے اشعار زندگی آمیز ہیں۔
میں ہار ماننے والا تھا رات سے لیکن
افق پہ میں نے نسیمؔ اک ستارہ دیکھا ہے
ڈاکٹر منور ہاشمی کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اگرچہ کہیں کہیں فکر و فلسفہ، اخلاق و حکمت اور تصوف کو موضوع بنایا ہے تو صرف گوارا کرنے کی حد تک اور حسن و عشق کی داستان کے سوز و گداز ہی سے قاری کی دکھتی رگوں کو چھیڑا ہے کہ حسن سے زیادہ دل اور تخیل کو کچھ اور متاثر نہیں کرتا۔
دل کے جذبے جوان رکھتی ہے
تیرے حسن و جمال کی خوشبو
ہے منورؔ تمہارے ہونٹوں میں
اک پری رُخ کے خال کی خوشبو
اکرم کنجاہی دبستان کراچی میں فی البدیہہ ادبی مکالمے کے لیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ متعدد کتابوں کے دیباچے اور فلیپ تحریر کر چکے ھیں۔ فن تقریر اور فن خطابت پر بھی ان کی کتابیں موجود ہیں۔ نظموں کا انتخاب، رضیہ فصیح احمد کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ اور جوہر عروض پر انہوں نے ترتیب و تدوین کا کام انجام دیا۔ بینکنگ کے حوالے سے انگریزی میں انھوں نے دو کتابیں لکھیں۔ اکرم کنجاہی ’’غنیمت‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اکرم کنجاہی کا تنقیدی سفر
Nov 25, 2020