بعض دفعہ انسان ایک آپشن پر رہتا ہے یا ایک آپشن پر رہنے پر مجبور ہے مثلاً نیند آ گئی ہے تو سونا ہے، بھوک لگ گئی ہے تو کھانا کھانا ہے سردی کے موسم میں گرم لباس ، جیکٹس ،ٹوپی اور جرابیں وغیرہ پہننی ہیں اور گرمی لگ جائے تو اے سی میں جانا ہے یا کم ازکم نہانا ہے اور باریک ہوا دار لباس پہننا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے میں دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر دوسری آپشن پر جائیں کہ ابھی نہیں سونا ،کھانا کچھ دیر ٹھہر کر کھانا ہے یا سردی کا بندوبست بعد میں کر لیں گے تو پریشانی کا سبب بنے گا ۔ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں نمبر ایک قوت برداشت نمبر دو قوت فیصلہ نمبر تین اظہار ۔ یہ قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہیں مگر ان کا استعمال ہر انسان نہیں کرتا ۔ جو ان کا استعمال کرتے ہیں وہ لوگ کامیاب ہوجاتے ہیں جب دوسرے ناکام ۔ ہر ایک قوت کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ ہر آدمی بطور بزنسمین ، سیاست دان ،آفیسر ،ملازم ،مزدور، طالبعلم اور کسان اچھے اور برے حالات کا شکار ہوتا ہے اچھے حالات کسی کو یاد نہیں رہتے جبکہ برے حالات کسی کو بھولتے نہیں اور برے حالات انسان کو بڑا آدمی یا چھوٹا آدمی بناتے ہیں ۔ اپنے پیشے کے لحاظ سے جب کسی پر برا وقت آتا ہے تو وہ دبائو میں آجاتا ہے یہ برا وقت ناکامی یا نقصان کی صورت ہوتا ہے اس دبائو میں اس کے ہاتھ پائو ں پھول جاتے ہیں ۔ایسے میں اس سے کچھ ایسے کام سرزد ہو جاتے ہیں جو اس کے پیشے اور عزت کو لے ڈوبتے ہیں ۔یہاںمعلوم ہوتا ہے اس میں قوت برداشت نہیں ہے اور قوت برداشت کی کمی سے اس کی بنی بنائی زندگی اور عزت تباہ ہو گئی ۔ ایک بزنس مین ،سیاست دان،آفیسر ،ملازم ،مزدور،طالب علم اور کسان اپنے پستی کے روڈ پرآگیایوں اس کا سفر نئے سرے شروع ہو گا اب ایسی صورت حال سے نکلنے میں اسے ایک عرصہ چاہیے ۔ اگرچہ برے حالات میں اپنے حواس کھوبیٹھنے والوں کی تعداد لاکھوںمیں ہے اورباہوش و حواس کھیل کر کامیابی کو چھونے والے انگلیوںپرگنے جاسکتے ہیں مگر باہوش وحواس کھیلنے والے مثال بنتے ہیں جبکہ حواس کھو نے والے سبق ۔اسی طرع زندگی کے سفر میںکئی موڑ آتے ہیں جہاں پر درست اور بروقت فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے مگر گوں مگوں کی پوزیشن ہماری کامیابی کو کو سوںدور کر دیتی ہے آپ ایک طالبعلم کو لے لیجئے ایک طالبعلم کی کامیابی کی طرف سیڑھی کا پہلا زینہ میڑک ہے اس کے بعد اس کو اپنی کامیاب زندگی کیلئے ایک لائن کا انتخاب کرنا ہوتا ہے ۔ جس میں سب سے اہم کردار اس کے والدین کا ہے کہ اسکے والدین اس کی ذہنی اپروچ کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے مستقبل کا تعین کریں کہ بیٹا میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر اسے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے پر ہی مجبور کیا جائے تو یہ طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ ایسا طالبعلم نہ میڈیکل کا رہے گا نہ دوسری تعلیم کا اس کی مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا یا بعض والدین اس صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں کہ بیٹے کو کیا رکھوایا جائے یا میں اپنے بیٹے کو کیا بنائوں ۔ ڈاکٹر ،انجینئر ،آرمی آفیسر ، سول سروس آفیسر ،بینکر یا بزنس مین ۔ اس سٹیج پر اکثر والدین دو غلطیاں کرتے ہیں ایک یہ کہ وہ اپنے بچے کا ذہنی معیار نہیں پرکھتے دوم وہ تمام پر کشش لائنز کے درمیان فٹ بال بن کر رہ جاتے ہیں اور ایک غلط فیصلے پر بضد ہو کر اپنے بچے کو ضائع کر بیٹھتے ہیں اس چیز پر ایک طالبعلم کا بھی حق ہے کہ وہ اپنی ذہنی اپروچ کو دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کا انتخاب کرے وہ کیا پڑھ سکتا ہے یا کیا بن سکتا ہے اس پر اسے خود بھی سوچنا چائیے اور اگر اس کے والدین اسکی ذہنی اپروچ کے خلاف فیصلہ کریں تو اسے اپنے والدین کو قائل کرنا چائیے اور اپنے آئی کیو لیول کے متعلق اپنے والدین کو اگاہ کرے نہ کہ بے ادبی سے بغاوت کرے یا مجبوری کی حالت میں سمجھوتہ کر کے اپنا وقت اور والدین کا سرمایہ ضائع کرے اور آخر پر رزلٹ مایوس کن دے۔ یہ قوت فیصلہ ہے جو ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ہم اپنی زندگی میں اگرقوت فیصلہ نہیں رکھتے تو اپنے ساتھ اپنی اولاد کا بھی مستقبل دائوپر لگا دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ خود کو الیکشن کے دنوں میں محسوس کریں آپ کے سامنے تین سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں پی پی ،ن لیگ اور پی ٹی آئی ۔ آپ تینوں کے متعلق سوچ بچار میں پڑ جاتے ہیں کس کو ووٹ دوں کس کو نہ دوں کبھی آپ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی بہتر طور پر کام کررہی ہے اس کو مقروض ملک ملا ہے پھر بھی اس نے بہت پرفارم کیا ہے پھر سوچتے ہیں کہ ن لیگ اچھی جماعت ہے اسکے دور میں اتنی مہنگائی نہیں تھی عوام کی زندگی اتنی مشکل نہ تھی مگر اب ایسا نہیں ہے ن لیگ ان سے بہتر ہے اسکے بعد آپ سوچتے ہیں کہ پی پی بھٹو کی جماعت ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اس کے مخالفین اس پر ہر الزام لگا سکتے ہیں مگر بھٹو کو بے ایمان اور قوم دشمن نہیں کہہ سکتے اب تینوں جماعتوں کا ماضی اور حال آپ کے سامنے ہے اور آپ فیصلہ نہیں کر پا رہے گویا آپ میں قوت فیصلہ کی کمی ہے مگر اس صورت حال میں آپ کا ووٹ پاکستان کی بہتری کی بجائے ابتری کی طرف چلا جائے گا ۔ آپ سوچ سکتے ہیں ؟ کہ اس سے ملک کا کیا نقصان ہوا کم ظرف،کم علم اور کم فہم افراد حکمران بن گئے ۔ایسے حکمرانوں کی غلطیوں کا بوجھ نسلیں اٹھاتی اور پورا کرتی ہیں ۔ ہمارے ملک میں اکثریت غریبوں کی ہے اور حاکم امیر ہیں یہاں ووٹ غریبوں کے ہیں اور حکم امیروں کے ۔ یہاں کے غریب احتجاج بھی کرتے ہیں تو امیروں کیلئے اپنے حقوق کیلئے گونگے ہیں ان میں قوت اظہار نہیں اس کا نقصان بھی آپ کے سامنے ہے کہ اکثریت ہونے کے باوجود اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ اب میں اپنے موضوع پر آتا ہوں کہ ہمارے پاس دو آپشن ہوتے ہیں ۔
ہم ہر کام میں دو آپشن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ووٹ کس کو دیں ،اپنے بچے کو کیا پڑھائیں ،کس کے ساتھ رشتہ داری نبھائیں یا کس کو چھوڑ دیں ، کس کے ساتھ دل کی بات کریں کہ اس سے اپنی مشکلات کا حل ملے اور اپنی ناکامی یا نقصان کے ذمہ دار کو قصور وار ٹھہرائیں یا نہ ٹھہرائیں یہ سب دو آپشن ہیں جو ہماری شخصیت ،قسمت اور عزت کو تماشہ بنا دیتے ہیں یہ دو آپشن ہماری قوت برداشت ،قوت فیصلہ اور قوت اظہار پر بوجھ بن جاتے ہیں جس سے ہم یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے دم توڑ دیتے ہیں ۔