15ممالک کا تجارتی معاہدہ اور دنیا پر معاشی اثرات

Nov 25, 2020

وجیہہ الدین خان

15نومبر 2020 کو 15 ممالک بشمول، چین، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے باہمی تجارتی معاہدہ پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس تقریب کی میزبانی ویت نام نے ورچوئل سیشن کے ذریعے کی۔ اس تقریب میں 15 ممالک کے سربراہان حکومت نے دستخط کیے۔ اس باہمی تجارتی معاہدہ کو(RECP) (Regional Comprehensive Economic Partnership) کا نام دیا گیا ہے۔اس معاہدہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایشیا کے چار بڑے معاشی ممالک میں سے تین بڑے ممالک شامل ہیں۔ جن ممالک نے اس معاہدہ پر دستخط کیے ان کی آبادی اندازاً 2.2 ارب یعنی دنیا کا تقریباً تیسرا حصہ ہے۔ ان ممالک کا مشترکہ جی ڈی پی تقریباً 26 بلین ڈالرز ہے جو کہ دنیا کی معیشت کا تقریباً 28 فیصد ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے ممالک باہمی تجارت میں آسانیاں پید ا کرینگے اور ٹیکس کو 65% تک کم کرینگے۔ یہ باہمی تجارتی معاہدہ دنیا کے دیگر باہمی تجارتی معاہدوں سے بڑا ہے۔ اگر اس معاہدہ کا موازنہ امریکہ، میکسیکو، کینیڈا، (USMCA) اور یورپی یونین سے کیا جائے تو بھی 15 نومبر 2020 کو 15 ممالک کے درمیان طے پانے والا معاہدہ (Regional Comprehensive Economic Partnership)سے وسیع اور مؤثر معاہدہ شمار کیا جاتا ہے۔ معاہدہ کی تقریب سے بھارت نے خود کو علیحدہ کر لیا اور 15 ممالک نے بھارت کو شامل کیے بغیر ہی اس معاہدہ پر دستخط کر دیے۔ بھارت کا فی عرصہ سے اس معاہد ہ میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہتا تھا مگر بھارت کو اس وقت شدید معاشی بدحالی کا سامنا ہے اور بھارتی معیشت دان اس وقت بھارت کو کسی بھی تجارتی معاہدہ سے دور رہنے کی تلقین کر رہے تھے۔ 
دوسری جانب امریکہ کو اس معاہدہ میں شامل نہ کیا گیا ہے۔ اس معاہد ہ کی تجویز 2011 ء میں جنوب مشرقی ایشیا ئی ممالک کی تنظیم (ASEAN) کے انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقدہ اجلاس میں زیر غور آئی تھی۔ 2012ء میں کمبوڈیا میں ASEAN کے وزراء کے درمیان دوبارہ اس تجویز پر غور کیا گیا تھا۔ اس طرح تقریباً 9 سال سے ''علاقائی جامع معاشی شراکت داری'' کے معاہدہ پر کام جاری تھا اور کوشش کی جا رہی تھی کہ اس میں امریکہ اور بھارت کو بھی شامل کیا جائے۔ اس معاہدہ میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (ASEAN)کے تمام 10 ممالک یعنی برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائشیا، میانمار، فلپائن، سنگا پور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔ جبکہ مشرقی ایشیائی ممالک میں چین، جنوبی کوریا اور جاپان بھی اس معاہدہ کا حصہ ہیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی بخوشی اس معاہدہ پر دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کیمطابق آنے والے دنوں میں اس معاہدہ کی وجہ سے دنیا کی معیشت کو 186 ار ب ڈالرز سالانہ فائدہ ہو گا۔ چین کا دنیا کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ اس وقت چین کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3,266 ارب ڈالرز ہیں جو کہ دنیا میں تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 177 ارب ڈالرز ہیں۔ امریکہ کو معاشی طور پر چین کا سہارا لینا ضروری ہے۔ چین کی مصنوعات کی امریکہ میں کافی مانگ ہے۔
 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ چین کی مصنوعات کا استعمال امریکی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے جو کہ امریکی معیشت کی ترقی کیلئے درست نہ ہے۔ اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ برآمدات کرنیوالا ملک ہے۔ یورپی یونین میں بھی چینی مصنوعات کی کا فی مانگ ہے۔ اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے جاپان دوسرے نمبر آتا ہے۔ اسکے پاس تقریباً 1,389 ارب ڈالرز کے غیر ملکی ذخائر موجو د ہیں۔ دنیا کے زرمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے پہلے دس ممالک کی فہرست میں تائیوان کا نمبر چھٹا ہے۔ اسکے پاس تقریباً 501 ارب ڈالرز جبکہ ہانگ کانگ کا نمبر ساتواں ہے اسکے پاس تقریباً 475 ارب ڈالرز۔ جنوبی کوریا کا نمبر نواں ہے اسکے پاس تقریباً 426 ارب ڈالرز ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ''علاقائی جامع معاشی شراکت داری معاہدہ'' پر دستخط کرنے والے ممالک معاشی اعتبار سے کتنے مؤثر ہیں اور ان کا معاشی ترقی میں کتنا کردار ہے۔ بھارت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر آتا ہے اسکے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 572 ارب ڈالرز ہیں۔ بھارت اس وقت معاشی شرح نمو میں منفی کے ہدف چھو رہا ہے اور موجودہ حکومت کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا ہے۔ اسکی ایک وجہ کرونا وائرس کا بھارت میں نہایت تیزی سے پھیلاؤ کو قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب موجودہ حکومت کی بے جا غیر ترقیاتی منصوبہ جات پر رقم کا ضیا ع بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت کو خدشہ تھا کہ اگر بھارت معاہدہ پر دستخط کر کے اسکا حصہ بن جاتا ہے تو اسکی مصنوعات کو چین اور دیگر ممالک کی نسبت پذیرائی حاصل نہ ہو گی جس کی وجہ سے مستقبل میں شدید معاشی نقصان کا اندیشہ ہے۔
 امریکہ کو بھی ''علاقائی جامع معاشی شراکت داری معاہدہ'' کے اثرات پر شدیدتحفظات ہیں۔ امریکہ کا خیال ہے کہ اس معاہدہ سے دنیا میں معیشت کا کنٹرول تقریباًجنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے پاس آ جائیگا اور ان ممالک کی مصنوعات دنیا میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرینگی کیونکہ اس معاہدہ کی رو سے معاہدہ میں شامل ممالک باہمی تجارت کی عائد ڈیوٹی کو کم سے کم کرینگے یا ختم کر دینگے جس کی وجہ سے مصنوعات دیگر ممالک میں مناسب قیمت پر میسر آ سکیں گی اور دوسری جانب مصنوعات کی ترسیل میں بھی تیزی ممکن ہو سکے گی۔ کرونا وائرس نے دنیا کی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے اور خیا ل کیا جاتا ہے کہ کرونا وائرس کو کنٹرول کرنے تک دنیا کی معیشت مزید شدید متاثر ہو گی۔ اب ان ممالک کو معیشت میں ترقی کا موقع ملے گاجن کی مصنوعات کی لاگت کم ہے اور انکی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہیں۔ ایک دفعہ پھر زرعی ممالک کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کو دنیا کے معیار کے مطابق کریں اور ان کی برآمدا ت کا آغاز کریں۔ 
پاکستان زرعی ملک کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو خوب شہرت حاصل ہے مگر گزشتہ 20 سال سے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات بین الاقوامی توجہ حاصل نہ کر سکی ہیں۔ اسکی وجہ مصنوعات کے معیار میں اضافہ نہ کرنا بھی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کرونا وائرس سے متاثرہ عالمی معیشت میں توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے اور یورپی خریدار پاکستان کو بنگلہ دیش اور بھارت کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی نسبت زیادہ ترجیح دے رہے ہیں اور پاکستان کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے میدان میں خوب آرڈر موصول ہو رہے ہیں۔اسکی ایک اور وجہ مصنوعات کا لاگت میں دیگر ممالک کی نسبت کم قیمت ہونا بھی ہے۔ دنیا میں تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی معاشی تبدیلیوں کا اگر بغور جائز ہ لیں تو پاکستان کی مصنوعات کا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور چین کے ساتھ مل کر پاکستانی مصنوعات کے معیار میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ کرونا وائرس جہاں تباہی کا ساما ن لے کر آیا ہے وہاں زرعی خود کفیل ممالک کو عالمی معیشت میں بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو بین الاقوامی تجارتی قوانین سے روشناس کروایا جائے اور ان قوانین کے تناظر میں پاکستانی مصنوعات کی ''برانڈنگ '' کی جائے۔ جس سے پاکستانی مصنوعات کو عالمی پذیرائی ملے گی اور ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ 

مزیدخبریں