بحیثیت مسلمان اگر ہم اپنے کردار اور ضمیر پرغور کریں تو ہمیں ان تمام مشکلات کا حل واضح طور پر معلوم ہوجاتاہے جس سے ہم دو چار ہیں۔ آپ کو اقوام عالم میں سب سے زیادہ پستی اور تذلیل کا شکارمسلمان ہی نظرآتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کو مساوی حقوق وفرائض عطا کئے ہیں مذہب اسلام کو پسندیدہ فرمایاہے۔ پھر مسلمان تنزلی کا شکار کیوں ہوا اسکی بنیادی وجہ اپنے اسلاف کی پیروی سے روگردانی ہے۔
آج دین ودنیا کے درمیان ایسا آہنگ درکارہے جو دنیا کو دین کی راہنمائی میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائے مادی اور روحانی تقاضوںمیں ایسا توازن ہوکہ انسان استحصالی گورکھ دھندے کا شکارہوئے بغیرعدل وانصاف کے فیوض وبرکات سے بہرہ مندہوسکتے ہیں۔ اس منزل کا حصول انسان کے کردار اسکے ضمیر اور استعداد کے حسین سنگم میں مضمرہے اوریہی ایک صالح فرد کی تعریف بھی ہے۔ معروف جرمن مفکر امینول کانٹ نے کہا میں دو چیزوں سے متواتر متحیرہوتاہوں۔ ستاروں سے بھرا آسمان جومیرے اوپر سایہ فگن ہے اور روحانی نظام جو میرے اندرکی دنیا میں کارگروکارفرماہے۔ انسانی زندگی کے یہ دونوں پہلو یکساں اہمیت کے حامل ہیں، یعنی کائنات میں غوروفکر اور اس سے وابستہ نظام سے راہنمائی کا حصول۔فرمان خداوندی ہے رات دن کے الٹ پھیر اورز میں وآسمان کی تخلیق میں پرہیز گاروں کیلئے نشانیاں ہیں۔ اس کائنات کو مسخرکرنا انسانی فریضہ ہے اور کائنات کو جانے بغیر اسکی قوتوں کو مسخر نہیں کیاجاسکتا اور انہی قوتوںمیں ترقی کا راز پنہاں ہے۔
انسانی معاشرے میں انتشار اور انا کی بنیادی وجہ روحانی اقدار اور پہلوتہی ہے۔ بڑے بڑے بین الاقوامی تنازعات روحانی نظام سے روگردانی کے باعث جنم لیتے ہیں صحیح روحانی ترغیبات نفس کے منفی اثرات سے بچائو کا سامان مہیاکرتاہے اور کسی شائستہ تہذیب کی بنیادہے۔ روحانی نظام کا ایک اہم عنصرانسانی ضمیرہے اس کی تعمیرکیلئے تین بنیادی چیزیں ہیں۔اللہ تعالیٰ سے جو ہرخیرکامنبع ومخزن ہے گہرا تعلق اوریہ تعلق ایمان ہے۔بلند ترین شخصیت کا عملی نمونہ جسے انسان اپنے سامنے رکھے یہ نمونہ جناب رسالت مآبﷺ ہیں۔ ضبط نفس تاکہ اسکی مدد سے آپکو صحیح سمت چلایا جا سکے۔ زندہ ضمیر وہ آلہ کمپس ہے جو انسان کو سیدھی راہ پر قائم رکھنے میں مدد فراہم کرتاہے یہ انسان کو ایثار قربانی کی روش سے روشناس کرواتاہے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ آپ فرمادیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کاہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔ یہ ارشاد انسان کو مل جل کر رہنے کی زندگی کے ڈھنگ سکھاتاہے ایک رضاکارانہ اور معاون وژن عطاکرتاہے یہ سلیقہ زندگی اگر اختیار کیا جائے توکوئی وجہ نہیںکہ آج مسلمان دنیا کی سپرپاور بن جائیں۔حضرت محمدﷺ کا ایک احسان عظیم یہ بھی ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں کے پسماندہ اور درد کے ماروں کو جینے کی نئی امید اور قرینہ بتایا۔آیت قرآنی ہے کہ اے نبیﷺ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بناکربھیجا۔ ایک مغربی مفکر نے اس کی کیا عمدہ ترجیح ہے۔یعنی محمدﷺ نے محبت کو دردمندی میں بدل دیامگر آج ہمارے درمیان دردمندی توکجا خالص محبت کا وجود بھی نہیں رہا اس صورتحال میں اگر ہم خدا سے شکوہ کریں کہ ہم پر یہ ظلم کیوں ڈھائے جارہے ہیں تویقیناً ہم غلطی کرینگے۔ موجودہ دور کا انسان ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف مادی ترقی اپنے عروج کو پہنچ رہی ہے فاصلے سمٹ رہے ہیں اور ذرائع ابلاغ نے حقیقتاً دنیا کو ایک عالمی قریہ بنادیاہے اور دوسری جانب انسانی تہذیب، سماجی مسائل کو امڈتے ہوئے سیلاب کے آگے دم توڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے مل جل کر رہنے کی کسی آفاقی عادلانہ نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس عالمی قریہ میں فساد برپاہے۔ عہد حاضر کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ سماجی اور معاشرتی اور عمرانی علوم وضوابط کے تابع کیاجائے۔مثال کے طور پر معاشرتی آئین اس بات کی عکاسی کرتاہے کہ ’’طاقت ہی حق کا سر چشمہ ہے‘‘ مگر اسکے برعکس اصول یہ معین کرتاہے کہ ’’حق ہی طاقت کا سرچشمہ ہے‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قوت کو ضمیر کی لگام دی جائے مگر المیہ یہ ہے کہ آج انسانی استعداد کو جداجدا خانوںمیں بانٹ دیاگیاہے آج کردار اور استعداد ایک انسان میں بعدالمشرقین کی صورت پائی جاتی ہے۔ کردار اور استعداد دونوں ہی کا یکجاہونا ضروری ہے مگر انفرادی حیثیت سے یہ خوبیاں ناکافی ہیں ، یہ بات ہمیں اس ناگزیر دوراہے پرلے آتی ہے جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ یہ بات اب اظہرمن الشمس ہے کہ اکیسویں صدی کی قیادت وہ قوم کریگی جوکردار اور استعداد دونوں قوتوں کی حامل ہوگی، مگر ان قوتوں کے حصول کیلئے نیک نیت اور جہدمسلسل پر کاربند بنانا ناگزیر ہے۔ اجتماعی سطح پر ترقی کی منازل کی طرف قدم بڑھایا جائے ایجاد واختراع کا حصول ممکن بنایاجائے۔
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
کائنات کے خزانوں اور رازوں کوغیروںکیلئے چھوڑ دینا کھلی حماقت ہے مسلمانوں کو علم قوت اور وسائل پر ایجاد واختراع اور تحقیق وتفتیش کے ذریعے دسترس اور قوت حاصل کرنی چاہیے۔قرآن کی رو سے تسخیر کائنات بدرجہ مسلمانوں کا حق ہے۔
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردرا ہ ہوں وہ کارواں توہے