صدارتی اقبالؒ ایوارڈ اور صدرِ پاکستان

بعض شعبے، محکمے اور ادارے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جمود کا شکار ہوتے ہیں یا اتنی سست روی سے چل رہے ہوتے ہیں کہ ان پر ایک ٹھہرائوں کا گمانا ہوتا ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری نہیں کہ یہ ادارے زیادہ تر سرکاری ہی ہوتے ہیں لیکن کسی خوش قسمت ادارے کوایسا سربراہ مل جاتا ہے جو اس ادارے کے جمود کو توڑ کر اس کو متحرک اور فعال کر دیتا ہے۔ اس راہ میں زنگ آلود نظام اور کاہل سرکاری اہلکار بھی مزاحم ہوتے ہیں۔ کچھ سرکاری وسائل کی عدم دستیابی بھی راہ میں حائل ہوتی ہے لیکن باہمت اور اپنے دور سربراہی میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے سربراہ رکاوٹوں کو عبور کرتے چلے جاتے ہیں۔ اقبالؒ اکادمی پاکستان کو بھی ایسی ہی ایک سربراہ مل گئی ہیں جنہوں نے اکادمی کو خاص فعال کر دیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے صدارتی اقبالؒ ایوارڈ التوا کا شکار تھے۔ ایوارڈ یافتہ کتاب اور مصنف کا اعلان تو کر دیا جاتا تھا لیکن تقریب تقسیم ایوارڈ منعقد نہیں ہو رہی تھی۔ صدارتی اقبالؒ ایوارڈ چونکہ صدر پاکستان نے اپنے دست مبارک سے دینا ہوتا ہے اس لئے ایوارڈ حاصل کرنیوالوں کیلئے وہ مبارک ساعت آٹھ سال سے نہیں آ رہی تھی۔ اقبالؒ اکادمی کی سربراہ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے اس کیلئے کوششیں شروع کیں تو ہر بار سکیورٹی مسائل کا جواز پیش کیا جاتا۔ آخر میں یہ مسئلہ بھی اس طرح طے پایا کہ کیوں نہ تقریب ہی ایوان صدر میں منعقد کر لی جائے۔ اس کیلئے 9 نومبر یعنی یوم اقبالؒ ہی منتخب کیا گیا۔ یوں ایوارڈ کیلئے نامزد مصنفین اور بہت سے ماہرین اقبالؒ اور ادیب اکادمی کے خاص مہمانوں کی صورت میں اسلام آباد روانہ ہوئے۔ ایوان صدر کی خوبصورت تقریب گاہ میں اسٹیج کے دائیں بائیں شیروانی پہنے علامہ اقبالؒ کی تصاویر آویزاں تھیں۔ حاضرین خوشگوار حیرت میں تھے کہ ایوان صدر سے صرف صدارتی آرڈیننس ہی نہیں اقبالؒ ایوارڈ بھی جاری ہوتے ہیں۔ جن کو ایوارڈ ملنا تھے وہ خصوصی نشستوں پر تشریف فرما تھے۔ اتنے میں صدر پاکستان تشریف لائے۔ قومی ترانہ بجایا گیا۔ کبھی یوں ہوتا تھا کہ صدر، وزیراعظم یا کسی خاص شخصیت کے تقریب میں آنے پر حاضرین کو احتراماً کھڑا ہونے کو کہا جاتا تھا۔ کچھ کھڑے ہو جاتے تھے کچھ بیٹھے رہتے تھے اس طرح مہمان خصوصی اور منتظمین سبکی محسوس کرتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مہمان شخصیت کے اسٹیج پر آتے ہی قومی ترانہ بجا دیا جاتا ہے۔ تمام حاضرین کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی ایک پنتھ دو کاج‘ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور گفتگو کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ انہوں نے اقبالؒ کی شاعری اور فکر و فلسفہ پر عمدہ گفتگو کی لیکن اس باوقار تقریب میں ان کا لباس انکی شخصیت کی عکاسی نہیں کر رہا تھا شیروانی پہن لیتے تو انکی شخصیت اور تقریب مزید باوقار ہو جاتی۔ جب وہ ایوارڈ دے رہے تھے تو پتہ نہیں چلتا تھا کہ ایوارڈ دے کون رہا ہے اور لے کون رہا ہے۔ خاص طور پر اعجاز الحق اعجاز جنہوں نے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہی شیروانی زیب تن کر لی تھی نمایاں دکھائی دے رہے تھے۔ انکے علاوہ ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر سید عبداللہ نوائے وقت کے کالم نگار ظفر علی راجا، خالد الماس اور خرم علی شفیق کو صدارتی اقبالؒ ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم کا ایوارڈ انکی صاحبزادی ڈاکٹر عطیہ سید نے وصول کیا۔خوبصورت تمغہ، سند اور نقد انعام صبر کے پھل کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اب جب یہ سلسلہ شروع ہوگیا ہے تو امید ہے کہ یہ ایوارڈز ہر سال دیئے جائینگے۔ تقریب سے صدر پاکستان کے علاوہ وفاقی وزیر شفقت محمود، ڈائریکٹر اقبالؒ اکادمی پاکستان ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، سینئر ولید اقبال نے بھی خطاب کیا جبکہ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری غزالہ سیفی بھی اسٹیج پر تشریف فرما تھیں۔تقریب میں طلباء و طالبات کے ہر دلعزیز وفاقی وزیر تعلیم اور صدر اقبالؒ اکادمی شفقت محمود بھی شریک تھے۔ انہوں نے ذاتی دلچسپی لیکر اقبالؒ اکادمی کو مالی وسائل فراہم کیے ہیں۔ ہم اپنا دیرینہ مطالبہ دہرانے میں حق بجانب ہیں جو شفقت کو ملاقات پر بھی پیش کیا جا چکا ہے اور صدر پاکستان کو تحریری طور پر بھجوا چکے ہیںکہ ہر ادبی ادارہ دیگر ایوارڈز کے ساتھ بچوں کے ادب پر بھی لازمی ایوارڈ دے کیونکہ بچوں کے ادیب نسلوں کی کردار سازی کرتے ہیں۔ صدر پاکستان ایک آرڈیننس اس حوالے سے بھی جاری کر دیں تو ان کا احسان ہوگا۔ خود صدر صاحب ہر سال طبلہ نواز سے لیکر کھیلوں، ادب اور دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیتے ہیں تو بچوں کا ادب اس سے محروم کیوں؟(جاری)

ای پیپر دی نیشن