کلبھوشن جادیو پاکستان میں مسلمان شناخت کے ساتھ مبارک حسین پٹیل کا نام استعمال کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا اور اس نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ بھارت اس سزا کے خلاف عالمی عدالت انصاف چلا گیا۔ عالمی عدالت نے نہ تو کلبھوشن کی سزا کو کالعدم کیا نہ ہی اسکے ہونے والے ٹرائل کو ناقص قرار دیا جو کہ بھارت کے لیئے عالمی سطح پر ایک ناکامی تھی ،بھارت کی اگر سنی گئی تو صرف اتنی کہ عالمی عدالت نے ایک تو کلبھوشن کی سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا دوسرے اسے قونصلر کی رسائی کا حکم دیا اور تیسرا حکم یہ تھا کہ اسکی سزا پر نظر ثانی کے لیئے اسے سول عدالت میں اپیل کا حق دیا جائے۔ویانا کنونشن کے تحت بھی غیر ملکی قیدی کو قونصلر کی رسائی ضروری تھی سو کلبھوشن کو ایک بار نہیں بلکہ اب تک تین بار بھارتی قونصلر سے ملاقات کروائی جا چکی ہے، اس کی سزا پر نظر ثانی کے لیئے باقاعدہ قانون سازی کی گئی ، پہلے تو صدر مملکت نے اس حوالے سے ایک آرڈیننس جاری کیا اور اب ایک ایکٹ آف پارلیمنٹ بھی منظور ہو گیا ہے جو کلبھوشن کو ہائی کورٹ میںاپیل کا حق دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس معاملے میں پاکستان نے بہت ذمہ دارانہ اور محتاط رویہ اور طریقہ کار اپنایا ہے، اس سے قبل پاکستان انسانی ہمدردی کے تحت کلبھوشن کی ایک ملاقات اسکی والدہ اور پتنی سے بھی کروا چکا ہے ۔لیکن ان ساری سہولیات کے باوجود صورتحال یہ ہے کہ انڈیا کلبھوشن کی اپیل کی پیروی کرنے سے انکاری ہے، بھارت کی طرف سے سفارتی خط و کتابت کے باوجود کلبھوشن کے لیئے کوئی وکیل نامزد نہیں کیا گیا ، یہ قانونی تقاضا بھی پاکستان نے پورا کیا اور خود ہی ایک سرکاری وکیل کلبھوشن کے دفاع کے لیئے نامزد کر دیا۔ دیکھا جائے تو اب تک اس دہشت گردی اور تخریب کاری کے مجرم کو پاکستان نے ہر ممکن قانونی اور اخلاقی معاونت فراہم کی ہے ، قانونی ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آرمی عدالت کی سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیئے صدر مملکت کو آرڈیننس جاری کرنے اور پارلیمنٹ کو نیا قانون بنانے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔فوجی عدالت کے بہت سے فیصلے سول عدالتوں میں چیلنج ہونے کے بے شمار نظیریں موجود ہیں ۔ بھارت اگر اپیل کی عدم پیروی کرتا ہے تو ایسی صورت میں بھی پاکستان کے اوپر کوئی بار نہیں عالمی عدالت انصاف نے یہ نہیں کہا کہ ملزم اگر وکیل نہیں کرتا تو اسکی منت سماجت کی جائے۔ یا بھارت بطور ریاست کوئی وکیل نامزد نہیں کرتا اور پاکستان کو ضرورت نہیں کہ یاددہانی کے سفارتی مراسلے بھیجے جنکے جواب بھی موصول نہ ہوں ۔ دیکھا جائے تو پاکستان نے اب تک عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار کو قبول کر کے، کلبھوشن کی اسکی ماتاجی اور پتنی سے ملاقات کروا کر، اسکے لیئے خود سے وکیل کا انتظام کروا کر، صدر مملکت سے آرڈیننس جاری کروا کر اور پارلیمنٹ سے نیا قانون بنوا کر ایک ذمہ دار اور محتاط حکمت عملی اپنائی ہے لیکن اسے پاکستان کی معذرت خواہانہ پالیسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم نے کشمیر کے معاملے پر محتاط رویہ اپناتے ہوئے اپنی پالیسی کو صرف کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت تک محدود رکھا جبکہ حالات نے ثابت کیا کہ وطن عزیز کی پالیسی ان اخلاقی حدود سے آگے جانے کی متقاضی تھی۔گزشتہ چوہتر برسوں تک اس محتاط کشمیر پالیسی کا نتیجہ نکلا تو یہ کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوڑے دان میں پھینک کر اپنے آئین سے آرٹیکل 370ختم کر دیا اور اپنے کاغذوں میں جموں و کشمیر اور لداخ اپبے نام کر لیا۔ بھارت کے اس غیر ذمہ دارانہ عمل پر اقوام عالم نے تو کوئی ناک بھوں نہیں چڑھائی پاکستان کا شوروغوغا بھی نقار خانے میں توتی ثابت ہوا۔ یہ ہماری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کاایک بھیانک نتیجہ تھا۔ جسکا اصل خمیازہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے رہنے والے بھگت رہے ہیں ۔ مطلب یہ کہ جہاں محتاط اور ذمہ دار رویہ کارگر نہیں ہوتااور آپ کا دشمن آپکی ذمہ دار پالیسی کو آپکی کمزوری سمجھتا ہے وہاں پھر صورتحال کے مطابق ایک radical,aggresive,proactiveاور
offensiveپالیسی وقت کی ضرورت بن جاتی ہے۔بھارت نے ہمیشہ پاکستان سے متعلق معاملات میں جارحانہ رویہ اپنایا، ممبئی حملوں میں انہوں نے پہلے مرکزی ملزم اجمل قصاب کو پاکستانی بنانے کی بھر پور کوشش کی ، آج بھی بھارت کے کاغذوں میں اسے فریدکوٹ کا رہائشی ہی لکھا جاتا ہے لیکن بھارت نے اسے پھانسی دینے میں دیر نہیں کی۔اسی حملے کا ایک شریک ملزم ذکی الرحمان لکھوی کو بھی بھارت نے اسی الزام میں جکڑنے کی کوشش کی اور ہم نے بھی بھارت کی فراہم کردہ گھڑی ہوئی معلومات کو لیکر ذکی الرحمان کو عدالت سے سزا دلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اندازہ کیجیئے کہ بھارت کے ایئر بیس پٹھان کوٹ میں حملہ ہوتا ہے اور اسکا الزام بھی پاکستان پر عائد کر دیا جاتا ہے اور ہماری اس وقت کی حکومت کی معصومیت دیکھیئے کہ پٹھان کوٹ انڈیا میں ہونے والے حملے کی ایف آئی آر ہمارے شہر گوجرانوالہ کے پولیس سٹیشن میںدرج کرائی جاتی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت میں کوئی پٹاخہ بھی پھوٹے تو اسکا الزام پاکستان پر لگتا ہے سرحد کے قریب کوئی کبوتر پکڑا جائے تو اسے بھی پاکستانی جاسوس ثابت کیا جاتا ہے ۔ اگر ان الزامات پر چلا جائے تو پھر پلوامہ اور اڑی حملے کے الزامات بھی پاکستان پر ہی لگائے جاتے ہیں کیا ہم ان بے بنیاد الزامات کی ایف آئی آر بھی اپنے خلاف پاکستان میں درج کروائیں گے۔کہناصرف یہ ہے کہ کلبھوشن کے معاملے پر پاکستان کو معذرت خواہانہ اور ہمدردانہ رویئے سے آگے نکل کر جارحانہ رویہ اپنانا ہو گا ۔ کلبھوشن ایک دہشت گرد جاسوس ہے جسکے ہاتھوں پر کئی معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ، اسے عام جاسوس نہیں بلکہ بھارتی دہشتگرد جاسوس سمجھا جائے۔ ضرورت ہے کہ ارباب اختیار اسے کلبھوشن جادیو سمجھیں مبارک حسین پٹیل نہیں۔اب وہ پھانسی گھاٹ چڑھتا ہے یا ابھینندن اور کشمیر سنگھ کی طرح زندہ واپس جاتا ہے، یہی ہمارے سیاسی اور عسکری حکمرانوں ، عدالتوں اور پارلیمنٹ کا امتحان ہے۔ عدالتی ریشہ دوانیوں کے ساتھ آئین کا آرٹیکل 45بھی اس دہشت گرد جاسوس کا فائدہ پہنچا سکتا ہے اس لیئے بہت ضروری ہے کہ اس معاملے میں ہمدردانہ رویئے کی بجائے جارحانہ رویہ اپنایا جائے جیسا کہ مقابل فریق اپناتا ہے۔ ورنہ چوہتر برس میں عالمی معاہدوں کی پاسداری کرنے ، ذمہ دارریاست ہونے اور آئین و قانون کی یکطرفہ عملداری میں ہمیں عالمی سطح پر تنہائی کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔