معزز قارئین، پہلی کاوش پسند کرنے کا بہت شکریہ، دوستوں کی اکثریت نے میری کوشش کی حوصلہ افزائی کی،جس کا مشکور ہوں اور سوچا تھا کہ ہفتے میں ایک ہی کالم لکھونگا مگر آج مجبور ہو کر بہت کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہے کیونکہ آج ایک اور محرومی کا احساس ہوا ہے۔ صحافتی برادری کا ایک اور سایہ سر سے ہٹ گیا ہے، ایک بھائی اور ایک اور دوست ہمیں اس دنیا اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔یہ بات طے ہے کہ ایک دن ہم سب نے جانا ہے۔مگر ایک بے یقینی اور بے چینی فطری ہے۔صحافتی تاریخ کا ایک اور سنہرا باب بند ہو گیا۔ابھی طارق ملک اور ارشد وحید چوہدری کو ہم سے جدا ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا۔ابھی ان ستاروں کا ماند ہوئے اتنا وقت نہیں گزرا تھا کہ صحافت کا ایک اور چمکتا ستارہ صحافتی دنیا کو تاریک کر گیا۔۔ ہمارے سینیئر صحافی خالد خان ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔خالد بھائی جیسے زندہ دل صحافی اس شعبے میں کم ہی ہیں۔مجھے آج بھی یاد ہے وہ دن جب راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں ٹی ٹونٹی میچ کے دوران میں کافی بنانے کے لیے اٹھا تو پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا آفیشل شکیل بھائی اور سینیئر صحافی راجہ ناصر بھی ساتھ آئے اور کہا کہ ہم بھی تمہارے ہاتھ کی بنائی کافی پینے آئے ہیں ۔گپیں لگاتے کافی بن گئی اور ہم نے اپنا اپنا کپ اٹھایا اتنے میں خالد بھائی بھی ہمارے پاس آگئے اور کافی بنانے لگیتو میں نے اپنا کپ آگے بڑھایا اور ان سے کہا ہے کہ یہ میں نے آپ ہی کے لیے بنائی تھی۔خالد بھائی نے وہ کپ لینے سے انکار کر دیا کہ میاں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ میرا دل رکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں؟ تو شکیل بھائی نے انہیں کہا کہ یہ ایسا ہی ہے۔اگر آپ اس کے ہاتھ کی بنی کافی پی لینگے تو پوری سیریز میں اس کا انتظار کرینگے۔۔ پھر وہی ہوا جو شکیل بھائی نے کہا خالد بھائی مجھے جب بھی ملتے تھے تو اپنے مخصوص انداز میں مجھے آواز دے کر دعا دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ تمہارے ساتھ بہت ساری دعائیں ہیں۔تمہیں کبھی پریشانی نہیں ہوگی،کبھی کسی اور اسائنمنٹ کی وجہ سے میچ میں حاضری نہیں ہو پاتی تھی تو شکیل بھائی اور صحافی دوست ان کا پیغام دیتے تھے کہ خالد بھائی نے آج غیر حاضری لگا دی ہے۔مگر اس بار خالد بھائی کی غیر حاضری لگ گئی۔بغیر بتائے ہی نکل گئے اکیلے ہی لمبے سفر پر۔ اللہ تعالیٰ خالد بھائی کی مغفرت کرے اور انہیں جنت میں اعلٰی مقام عطائ فرمائے۔کہتے ہیں کہ جو لوگ بہت زندہ دل اور ہر ایک کو پیارے ہوتے ہیں وہ اللہ کو بھی پیارے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی کی وہ واحد ذات ہے جو دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ محبت کرتی ہے۔کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنے دکھ درد کو نظر انداز کر کے ہمیں مسکرا ہٹیں بکھیرتے تھے ہمیشہ،آپ نے تین دہائی سے زائد عرصے تک پاکستان کی خدمت کی،اپنے صحافتی کیریئر میں کئی ایسے کرکٹرز کو متعارف کرایا جنہیں نظر انداز کیا گیا۔جن کی لکھی ہوئی خبروں کے الفاظ ہم جیسے صحافیوں کے لیے کسی تربیت سے کم نہیں ہیں۔ہم نہیں بھول پائینگے آپ کو خالدبھائی، ایسے ہی جیسے طارق ملک بھائی ،ارشد وحید چوہدری اور اپنے ان دوستوں کو نہیں بھولے۔قارئین: آپ میں سے بہت سے لوگ ارشد وحید چوہدری کے بارے میں جانتے ہونگے۔میری اکثر ان سے پارلیمنٹ ہاوس میں ملاقات کے دوران پارلیمانی امور پر خبروںپررہنمائی ملتی رہتی تھی۔ارشد وحید چوہدری انتہائی نفیس اور اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ارشد وحید بھائی کا انتقال کورونا سے جنگ لڑتے ہوئے ہوا۔مگر اس سے زیادہ وقت ان کے ساتھ نہیں گزرا۔مگر طارق بھائی کے ساتھ میری زندگی کا ایک بڑا حصہ گزرا ہے۔طارق بھائی سے جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو وہ ایک اچھے چینل میں بطور سینیئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔مگر ان کی شخصیت میں اتنی سادہ تھی کہ طارق ملک صاحب کی شخصیت کو دیکھ کر ایسا لگتا نہیں تھا کہ وہ اپنی زات میں الفاظ کا ایک بہت بڑا خزانہ لیے ہوئے ہیں۔طارق ملک صاحب نے نا صرف پاکستان بلکہ غیر ملکی میڈیا میں بھی اپنا نام بنایا۔انہیں دفاعی ،خارجہ اور دیگر امور پرعبور حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس میں بھی مہارت حاصل تھی۔صحافت کے ساتھ ساتھ طارق بھائی ہم جیسے بہت سارے صحافیوں کے لیے مشعل راہ بھی تھے اور صحیح معنے میں استاد بھی۔انہوں نے کئی صحافیوں کو مشکل ادوار میں بھی حالات سے لڑنے کے گر سکھائے۔میں جس ادارے میں تھا وہاں طارق ملک کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ہم اکثر ایک دوسرے سے اپنے تجربات شیئر کیا کرتے تھے۔ میڈیا میں پیدا ہونے والے حالات پر بات ہوا کرتی تھی اور وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مشکل حالات کا سامنا اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مل کر ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔اداروں میں آنے والے بڑی تبدیلیوں اور حالات کا سامنا کرتے ہوئے کبھی نا گھبرانے والے طارق بھائیبھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔کورونا ظالم مرض نے انہیں بھی ہم سے چھین لیا۔ ہم جیسے دوستوں نے انہیں کچھ دن یاد رکھا اور پھر بھول گئے،ظاہر ہے یہ بھی اس دنیا کی ریت ہے ،قریبی رشتے بھی زیادہ عرصہ اس دماغ میں نقش نہیں رہتے،کبھی نا کبھی یہ نقو ش دماغ سے اوجھل ہو ہی جاتے ہیں۔مگر جن کی قدر ہم اپنی زندگی میں نہیں کر پاتے انہیں اس دنیا سے جانے کے بعد ان کے لیے چاہے جتنے بھی تقریبا ترکھ لیں،کتنا بھی انہیں یاد کرلیں،ان کے لیے امداد اور اعزازات کا اعلان کر لیں،ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔چاہے حکومت ہو،ادارہ ہو یا تنظیم،ہماری گذارش تو یہی ہے کہ ان کی زندگی میں ہی انہیں اس سے نوازا جائے تو شاید ان کی زندگی کی میں ہی انہیں اپنی کی ہوئی خدمت اور محنت کا پھل مل جائے۔یہ الزام نہیں توجہ دلانے کی کوشش ہے ان تمام صحافیوں کی طرف سے جوج اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس ملک کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔جو اس معاشرے کو ایک حقیقت کا آئینہ دکھانے میں گزار دیتے ہیں۔اپنے گھر ،خاندان اور قریبی رشتوں سے دور رہ کر،اپنی بھوک کو نظر انداز کر کے معاشرے سے بھوک ختم کرنے کیلیے اپنے الفاظ سے حالات کی تبدیلی کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔اپنے مالی حالات سے لاپرواہ ہو کر اپنے ملک کے حالات بدلنے کے لیے ظالم حکمرانوں کے خلاف بھی ڈٹ جاتے ہیں۔اس مقدس سے پیشے سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اپنے گھروالوں کو کم اور اپنے کام کو زیادہ وقت دیتے ہیں۔معاشرے کے پسے ہوئے،ٹھکرائے ہوئے،مایوس ،اور نظر انداز ہونے والے جب اس صحافی کے پاس آتے ہیں تو یہی صحافی ان حکام تک ان کا پیغام پہنچاتے ہیں۔اور جب یہ خبر ان حکام تک پہنچتی ہے اور اس پر جب کوئی ایکشن ہوتا ہے تواس صحافی کی خوشی کی انتہا ئ کیا ہوتی ہے؟ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس سے متعلقہ وہ خبر ہو اور جس صحافی نے یہ خبر دی ہو۔مگر جو خبر یہ متعلقہ حکام تک پہنچاتا ہے وہ صحافی اپنی ساری عمر اس امید میں گزار دیتا ہے کہ اس کی محنت کا صلہ شاید کبھی نا کبھی اسے ملے گا ضرور۔یہ پیغام سمجھنے والوں کے لیے ایک اہم اور بڑی تبدیلی ہیاگر سمجھ میں آجائے تو۔ورنہ چلتا رہے گا سب ایسے ہی،جانے والے کی جگہ کوئی دوسرا لے لے گا۔مگر اسے بھی یہ سوچنا ہوگا کہ اس کی جگہ بھی کسی نے لینے ہے،آج نہیں تو کل۔تو کیوں نا اس روایت کو بدلنے کے لیے کچھ ایسا کر دیں کہ جانے والوں کو بھی اطمینان ہو اور ان کی جگہ آنے والوں کا ضمیر بھی مطمئن ہو۔