آڈیو ، ویڈیو لیکس اور ٹائمنگ

وفاقی دارالحکومت میں آج کل جہاں آڈیو، ویڈیو لیکس کی ہلچل مچی ہے وہاں  ''حقائق'' کے جواب میں  ''دلائل'' کی بھی بھرمار ہے  ان سب کے بیچ جو چیز سب سے اہم ہے وہ ہے ان لیکس کی ٹائمنگ اور ترتیب، سابق چیف جسٹس  ثاقب نثار کی آڈیو لیک کروائی گئی، اگرچہ اس کی ساکھ پر ہنوز سوالیہ نشان برابر موجود ہے تاہم اس آڈیو کی ریلیز کا مقصد یہی تھا کہ آڈیو سے ان الزامات کو تقویت پہنچائی جا سکے جو گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے حال ہی میں اپنے ایک حلفیہ بیان میں ''موزوں'' کئے، اور یہ مقصد حاصل بھی ہوا کیونکہ اس ریلیز کے فوری بعد شاہد خاقان عباسی نے فرمایا کہ اس آڈیو کے بعد سپریم کورٹ کو نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف سزائیں کالعدم قرار دے دینی چاہیئں، رانا شمیم کے الزامات میں بھی یہی کہا گیا کہ  2018  کے انتخابات سے قبل اس وقت کے چیف جسٹس  نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔ اگرچہ آڈیو میں ہونے والی گفتگو سے ملتی جلتی کچھ تقریبات کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں جن سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ ججز کو بدنام کرنے کے لئے ان کی مختلف ویڈیوز کی کاٹ چھانٹ کر کے ''مطلوبہ'' نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اگر ن لیگ کے  ماضی پر نظر دوڑائیں تو حقائق کچھ اور ہی اشارہ دیتے ہیں۔ ثاقب نثار کی آڈیو تو جزوی طور پر جعلی ثابت ہو ہی چکی ہے لیکن اب کسی ویڈیو کی بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، آڈیو، ویڈیو کے اس کھیل میں کس کی چونچ اور کس کی دم غائب ہونے والی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ رانا شمیم کے بیان میں کوئی نئی بات بیان نہیں کی گئی بلکہ یہ الزام تو مریم نواز کی پٹیشن کا حصہ ہے اور اب جب عدالت میں اس پٹیشن کی سماعت ہونا تھی تو بیان حلفی کا شوشہ چھوڑ دیا گیا، اچانک لندن سے نوٹرائیزڈ یہ بیان حلفی اس لئے نمودار ہوا ہے کیونکہ اس کی صداقت کی بجائے ٹائمنگ ہی اہم تھی۔ اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم
 لیگ (ن) کی قیادت کا مستقبل اسی بات سے جڑا ہے کہ اداروں میں تقسیم اور تصادم ہو جس کے بعد انہیں وہ ''ریلیف'' مل جائے جس طرح کا سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔ تیس سالہ اقتدار کا تجربہ رکھنے والے میاں نواز شریف یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اداروں اور افراد کی کمزوری سے فائدہ کیسے اٹھایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ عدلیہ پر حملوں کی ایک تاریخ رکھتی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ شریف خاندان کی ''کیمسٹری'' ہی یہی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں تو پھر کسی اور کو بھی اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے، آج ''ووٹ کو عزت دو'' کی دھن پر نعرے مارنے والے کارکنان کو تو شاید یاد بھی نہیں ہو گا کہ یہی میاں صاحب 2012 میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ چلے گئے تھے اور انہیں نااہل کروا کر دم لیا تھا۔ یہی وہی موصوف تھے جنہوں نے اسلام آباد میں بطور قائد حزب اختلاف شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش کی اور نتیجے میں پارلیمنٹ ہی تحلیل کر دی گئی اور اگلے الیکشن میں ''ان'' کی حمایت سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنے، یہ الگ بات ہے کہ اقتدار میں آتے ہی انہیں ایسا لگنے لگتا ہے کہ یہ سچ مچ عوام میں مقبول ہیں اور یہ حقیقی لیڈر بننے کی کوشش میں اسی ٹہنی کو کاٹ پھینکتے ہیں جس پر براجمان ہوتے ہیں، نتیجہ جدہ یا لندن یاترا کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ شاید ن لیگیوں کی اکثریت کو یاد بھی نہ ہو کہ دوتہائی اکثریت کے زعم میں نومبر 1997 میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے قیام کے معاملے پر اختلافات کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف عدلیہ پر چڑھ دوڑے یہ کمرہ عدالت میں داخل ہونے پر فرنیچر کے ساتھ ساتھ قائداعظم کا پورٹریٹ بھی توڑ دیا جاتا ہے، ن لیگ کے بے لگام کارکنان کمرہ عدالت میں موجود پیپلزپارٹی کے سینیٹر اقبال حیدر پر بھی اپنا غصہ نکالتے ہیں اور انہیں تشدد کر کے زخمی کر دیتے ہیں۔ اس مجرمانہ واقعہ میں ملوث تمام کرداروں کو ن لیگ کے دور اقتدار میں نہ صرف پرکشش عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ پارٹی قیادت کی نظر میں ایسے تمام  ورکروں کی ''وفاداری'' شک و شبہے سے بالاتر مقام حاصل کر لیتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے ہی ''احتساب الرحمان'' کے کہنے پر اعلی عدلیہ کے ایک جج کی جانب سے پیپلزپارٹی کے ''مرد آہن'' آصف علی زرداری کو سزا سنا دی جاتی ہے اور میرٹ کا قتل عام کروایا جاتا ہے، اس آڈیو ٹیپ کے منظر عام پر آنے کے باوجود کسی نون لیگی کی غیرت کو ہلکا سا بھی ''جھٹکا'' نہیں لگتا بلکہ اسے اپنی قیادت کی سیاسی ''دانشمندی'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں نون لیگ کے موجودہ صدر میاں شہباز شریف اسی جج کو ٹیلی فون کر کے اپنی پارٹی کے کسی شخص کے خلاف اخراج مقدمہ کی درخواست کر رہے ہیں اور جج صاحب کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکم کی تعمیل کی خوش خبری سناتے ہیں، اسی ٹیلی فون کال میں ہی میاں شہباز شریف اپنے ایک رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کے مقدمہ کا فیصلہ بھی اس کے حق میں سنانے کی خواہش بیان کرتے ہیں اور مذکورہ جج صاحب شاداں و فرحاں حکم کی تعمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  ملک کے موجودہ سیاسی حالات جس نج پر پہنچ چکے ہیں، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب مکافات عمل کا سسٹم آن ہونے لگا ہے، جس عدلیہ کو ن لیگ نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا وہ عدلیہ اب ان کی بجائے کسی ''اور'' کی ہم خیال دکھائی دیتی ہے، اگر ن لیگ کی قیادت کی حالیہ سزائوں سے سے بچ نکلنے کی پلاننگ ناکام ہوئی تو خدشہ یہ ہے کہ سسٹم تو شاید ہلکا پھلکا ڈگمگانے کے بعد اپنی جگہ پر دوبارہ مستحکم ہو جائے گا لیکن شریف خاندان کی سیاست کا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو سکتا ہے۔ ادارے کمزور ہوں تو ملک کمزور ہوتا ہے اور ملک کمزور ہو تو بڑے حادثے رونما ہوتے ہیں، بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بظاہر حکومت اور اداروں کے مابین جو فاصلے دکھائی دے رہے ہیں وہ اتنے زیادہ نہیں کہ ختم نہ کئے جا سکیں دوسری جانب میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے لئے جو راستہ چنا ہے وہ تخت یا تختہ والا ہے لیکن اس راستے پر ان کی کامیابی کے لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ ان کے بیانئے کو کم از کم اپوزیشن جماعتوں کی حمایت تو حاصل ہو لیکن یہاں تو بداعتمادی کی ایسی فضا بنی ہے کہ میاں نواز شریف کو اپنے بھائی پر بھی ''نظر'' رکھنا پڑ رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن