حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا اگر ہجرت (کی فضیلت) نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد بننا (پسند کرتا) اور اگر دوسرے لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار ایک وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔ حضرت مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب جوان اور ہم عمر تھے، ہم آپ کی خدمت میں بیس دن تک ٹھہرے رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بہت شفیق تھے۔ جب آپ نے معلوم کیا کہ اب ہمارا دل اپنے گھر والوں کی طرف مشتاق ہے تو آپ نے ہم سے پوچھا کہ اپنے پیچھے ہم کن لوگوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہم نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اپنے گھر چلے جاو¿ اور ان کے ساتھ رہو اور انہیں اسلام سکھاو¿ اور دین بتاو¿ اور بہت سی باتیں آپ نے کہیں جن میں بعض مجھے یاد نہیں ہیں اور بعض یاد ہیں اور (فرمایا کہ) جس طرح مجھے تم نے نماز پڑھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑھو۔ پس جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے اذان کہے اور جو عمر میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (قباءکے) بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہوگئی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کے لیے گئے اور نماز کا وقت ہوگیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف نہ لاسکے۔ چناچہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر اذان دی، ابھی تک چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تشریف نہیں لائے تھے اس لیے وہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہی کی ہدایت کے مطابق) ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم وہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہوگیا ہے، کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ اس کے بعد بلال ؓ نے نماز کی تکبیر کہی اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے (نماز کے درمیان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آپہنچے۔ لوگ بار بار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے مگر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے (مگر جب باربار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپ کے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں، اسے جاری رکھیں۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاو¿ں پیچھے آگئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگو! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لیے ہے (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہیے، کیونکہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا۔ اے ابوبکر! جب میں نے اشارہ بھی کردیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیا، ابوقحافہ کے بیٹے کے لیے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔
برا بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حدیبیہ کی صلح (قریش سے) کی تو اس کی دستاویز علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھی تھی۔ انہوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) کی طرف سے۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو، اگر آپ رسول اللہ ہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں مٹا سکتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود اپنے ہاتھ سے وہ لفظ مٹا دیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ (آئندہ سال) تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے، تو کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے قربانی کا جانور حدیبیہ میں ذبح کردیا اور سر بھی وہیں منڈوا لیا اور کفار مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آئندہ سال عمرہ کرسکیں گے۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یعنی تین دن) چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مکہ میں داخل ہوئے، پھر جب تین دن گزر چکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم وہاں سے واپس چلے آئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نضر کی بیٹی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ اس پر لڑکی والوں نے تاوان مانگا اور ان لوگوں نے معافی چاہی، لیکن معاف کرنے سے انہوں نے انکار کیا۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ (یعنی ان کا بھی دانت توڑ دیا جائے) انس بن نضر ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ربیع کا دانت کس طرح توڑا جاسکے گا۔ نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا انس! کتاب اللہ کا فیصلہ تو بدلہ لینے (قصاص) ہی کا ہے۔ چناچہ یہ لوگ راضی ہوگئے اور معاف کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ خود ان کی قسم پوری کرتا ہے۔ فزاری نے (اپنی روایت میں) حمید سے، اور انہوں نے انس ؓ سے یہ نقل کی ہے کہ وہ لوگ راضی ہوگئے اور تاوان لے لیا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنا قرض طلب کیا، جو ان کے ذمہ تھا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ سعلیہ وآلہ وسلّم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے۔ مسجد کے اندر ان دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بھی سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم باہر آئے اور اپنے حجرہ کا پردہ اٹھا کر کعب بن مالک ؓ کو آواز دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پکارا اے کعب! انہوں نے کہا یا رسول اللہ، میں حاضر ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا معاف کر دے۔ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں نے کردیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے (ابن ابی حدرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا کہ اب اٹھو اور قرض ادا کر دو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے اور انہیں پھیلانے کی توفیق عطاءفرمائے جو لوگ دین کی تبلیغ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں کو عام کر رہے ہیں ان کی مدد اور تعاون کی توفیق عطاءفرمائے۔ آمین ثم آمین