جنگل میں چھوٹے بڑے اساتذہ کی قلت نہ تھی تو کثرت بھی نہیں تھی۔ گروہ در گروہ اساتذہ و علماء اپنے اپنے حلقہ میں مصروف کار تھے یا دکھائی پڑتے تھے۔ البتہ یہ طے ہے کہ یہ وہ حلقہ تھا ہی نہیں جس کے متعلق غالب نے کہا تھا کہ عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے۔ استادوں کی اس بھیڑ میں اساتذہ معلم تھے نہ عالم ساقی علم۔ گنتی کے درویش ید بیضا لیے ڈھول پیٹنے سے قاصر تھے۔ ٹین کے خالی ڈبے البتہ ڈھول پیٹ پیٹ کر ہلکان ہو رہے تھے۔اور صدر کی "استادی " تو مسلم تھی ،مرغ و ماہی والی " مسلم "۔صدر ذی وقار اور صدر محترم کے نعرے تھے جو لکھ کر یا بنوا کر متاثرین "صدر" میں تقسیم کیے گئے تھے۔ صدر کی کہانی بھی عجیب ہے۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب زمانے کے پیرہن پہ داغ ہی داغ اچھی طرح جم چکے تھے۔ اور تنظیم بازی کے اصول دشت و رخت میں ضم ہو چکے تھے۔ بنیادی طور پر کوئی بھی تنظیم اصول و قواعد کے مناسب اور مہذب انضباط ، ضبط و ترتیب اور درستی کے ساتھ منظم کی جاتی ہے اور بسا اوقات تنظیم سازی گروہ سازی کے اصولوں پر بھی کی جاتی ہے اس کا مقصد گروہ در گروہ جماعت کی مضبوطی ہے۔جنگل کے بادشاہ شیر کی بہادری کے "لوگو" دیکھ دیکھ کر بھیڑیے نے انگڑائی لی تھی اور بدبدا کر چلایا، " میں تے شیر ای بن ساں "۔ سو اس نے تن تنہا ہی حلف اٹھا لیا اور ساتھ ہی کر عہد کیا کہ گیدڑ ، لومڑی ،سیہہ ہر اطوار سے وہ شیر کا ٹیگ پہنے رکھے گا۔ افسران اعلی کی تبدیلی کے ساتھ ہی شیر کا لبادہ اوڑھے ، شیر کے لوگو لئے وہ ہر نئے آنے والے افسر کے پاس حاضری لگواتا اور اپوزیشن کو جوتے کی نوک پہ رکھتا۔ کئی بار اسے لگتا کہ چونکہ وہ صدر ہے اس لیے آمریت سے کام لینا اس کا فرض منصبی ہے۔ویسے اسے کسی بات کی خبر نہ تھی۔ اپنے بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرتے کارکن اسے زہر لگتے اور وہ احتجاجی طور پر شہر بدر ہو جاتا۔پروپیگنڈہ میں ماہر گیدڑ نما بھیڑیے کے پاس سیاسی بیانات کی کمی نہ تھی۔ دوسروں پر پیڈا ایکٹ لگوانے کے مشورے دیتے گیدڑ نما بھیڑیے نے سیاسی محاذ سنبھال رکھا تھا۔ داو پیچ میں کامل دست گاہ کے ساتھ وہ بار بار استعفے دیتا اور خود ہی اس پر ریجکٹ کا بورڈ لگا کر دوبارہ سے حلف اٹھا لیتا۔اسکی خواہش تھی کہ اس کا حلقہ ارادت بڑھتا رہے۔اس کے لیے وہ فون پر بھی ایک جمع ایک گیارہ پر ہی زور دیتا۔ تنظیم سازی کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے عقاب کی تیز نظری ، شمع کی روشنی کو داخل دفتر رکھتا۔لیکن حلف برداری میں تن تنہا ہی کودتا اور بڑے زوروں سے خود کو منوانے پر اصرار کرتا۔فرائض کی بجا آوری صرف چندہ اگانے تک رہ گئی تھی۔ یا افسران کے کان بھرنے تک۔شمع تو پھر شمع ہے۔ بے زبانی ہی اس کی زبان ہے اور طاقت بھی۔شمع تو سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتی ہے ۔۔ گریڈنگ ہو ، ڈسپیریٹی الاونس ہو یا پروموشن کے مرحلے۔ شمع کی روشنی سے فیض یاب ہونے والوں سے گیدڑ نما بھیڑیا ہمیشہ گیدڑ سنگھی لے کر ملاقات کرتا۔اپنا دامن پھیلائے ، تعلقات کا بوجھ اٹھائے گیدڑ نما بھیڑیا دوسروں کی ڈوریں کاٹنے کی سازش میں منہمک رہتا۔اسکی ’’استادی‘‘ بھی زہر بھری تھی اور دلائل بھی تعصب سے پر۔گیدڑ اور شیر میں کوئی قدر مشترک نہیں ، پھر بھی گیدڑ اکثر اوقات شیر ہونے کا تاثر پیش کرتا ہے۔رینگتے سانپ کی طرح اڑان بھرنے کی خواہش اسکے اندر کب سے پنپ رہی ہے۔تاریخ میں اسکے شواہد نہیں ملتے سوائے ٹیپو سلطان کے قول کے کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ اندازہ ہے کہ گیدڑ کے بہتر کو بدتر پڑھا ہے۔تبھی وہ شیر کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ عقاب کی لپک جھپک، تیز نگاہ، پروقار اور بارعب اڑان اور اونچی پرواز کی مثالیں اور شمع کے ظرف اور روشنی کو تسلیم کرتے شعرا و دانش ور عقاب و شمع سے تشبیہی نظمیں تحریر کرتے ہیں۔ اور شیر کی کھال میں بھیڑیے کی تصاویر دکھاتے رہتے ہیں۔ یہ مشکل نہیں کہ بھیڑ کی کھال اور چال بھیڑیے کو عیاں کر سکتی ہے۔ حالانکہ گیدڑ نما بھیڑیے نے اپنے لبادے سے آنکھیں چندھیا کر سب کو شیر کی نظروں سے دیکھنے کی بہتیری کوشش کی لیکن ایسے ہر عمل میں اس کی کھال سے جھانکتا مکر اسے عیاں کرتا چلا گیا۔ ہمارے گرد بے شمار ایسے شیر ہیں جن کی کھال نقلی ہے۔وہ کبھی جنگل کے بادشاہ نہیں بن سکتے۔عقاب کی نگاہ بلند اور شمع کی پھیلتی روشنی منظر کو واضح رکھتی ہے۔سنا ہے کہ گیدڑ کو جب ’’موت پڑتی‘‘ ہے تو اس کی قلعی گھلنے لگتی ہے۔ اس کے نعروں سے ہوا نکل جاتی ہے اور وہ محض گیدڑ بھبھکی رہ جاتی ہے۔ بس پھولے ، سمائیے دستور آپ کا نظروں سے گر کے کیسا لگے گا حضور کو ۔
(یہ ایک فرضی کالم ہے چور کی داڑھی میں کوئی تنکا نہیں) رہے نام اللہ کا