گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں یوم شہدا اور دفاع پاکستان کی تقریب سے اپنا الوداعی خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز سے کہا کہ وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ فوج نے سیاسی مداخلت سے پرہیز کا تہیہ کر لیا ہے جس پر کاربند رہے گی ، جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان پیدا کیا گیا، پاک فوج کبھی ملک کے مفاد کے خلاف نہیں جا سکتی، فوج پر شدید تنقید کی گئی، افسروں کو برے ناموں سے پکارا گیا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ملک میں غیر ملکی سازش ہو اور فوج خاموش رہے، ملک کے وسیع تر مفاد میں بہت صبر کیا، درگزر سے کام لیا مگر صبر کی بھی حد ہوتی ہے۔ اُمید ہے سیاسی جماعتیں بھی اپنی اصلاح کریں گی۔ ہار جیت سیاست میں ہوتی رہتی ہے، معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، فوج کبھی ملک کے خلاف نہیں جا سکتی جو سمجھتے ہیں وہ فوج اور عوام میں دراڑیں ڈال دیں گے وہ غلطی پر ہیں، ہم درگزر کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
یہ تقریر ان کی بطور آرمی چیف آخری تقریر تصور ہو گی، اس کا ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ فوج کے جنرل کے دل میں ملک و قوم سے کتنی محبت ہے، وہ کیسی کیسی باتیں برداشت کرتے رہے مگر اپنے اس عزم پر کاربند رہے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کرنی۔ اس کے برعکس افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان نجانے کیوں فوج سے آس لگائے بیٹھتے ہیں کہ وہ آگے آ کر ان کی حکومت بچائے یا ان کو حکومت کے راج سنگھاسن پر پہنچائے،سیاستدانوں کی اسی بے عملی اور دوغلی سیاست کی وجہ سے ماضی میں بھی طالع آزما جنرلوں کو موقعہ ملا کہ وہ سیاسی بساط لپیٹ کر ملک میں فوجی آمریت مسلط کریں، جنرل ضیاء الحق نے تو کھل کر کہا تھا کہ سیاستدانوں کا کیا ہے میں سیٹی بجائوں گا تو یہ…ہلاتے میرے پیچھے آئیں گے۔ جنرل جاوید قمر باجوہ کی اس تقریر نے ہر محب وطن پاکستانی کے دل و دماغ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کا ایک ایک لفظ پکار رہا ہے: بقول مجروح سلطان پوری
کچھ بھی ہوں پھر بھی دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ تلخی تقریر نہ دیکھ
سو یہ اب تمام سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوج کی طرف دیکھنے ، ایمپائر کی انگلی کے اشارے کی بجائے سیاسی میدان میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوں،یہی دنیا بھر کی سیاست میں ہوتا ہے، ہار جیت سیاسی کھیل کا ایک اہم حصہ ہے۔ دنیا بھر میں اسے نہایت خوشدلی سے قبول کیا جاتا ہے۔ تحفظات ہر جگہ ہوتے ہیں مگر ان کو بنیاد بنا کر سارے سیاسی عمل کو ہی مشکوک نہیں بنایا جاتا۔ اب ہمارے ہاں یہ ایک المیہ ہے کہ سیاستدان گنے چنے رہ گئے ہیں، سیاست میں بھی مختلف مافیاز نے قبضہ جما لیا ہے،ان میں لینڈ مافیاز بھی ہیں، کرائم مافیا بھی، منشیات اور اسلحہ بردار مافیا بھی، کرپشن مافیا بھی، صنعتی مافیا بھی اور وار لارڈ مافیا بھی ان سے بھی خطرناک انتہا پسند سیاسی و مذہبی گروپس بھی اب شامل ہو چکے ہیں، اس کی وجہ سے سیاست ہوش و خرد کا دامن چھوڑ کر انتہا پسندی کی طرف مائل ہو گئی ہے، سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا دیا گیا ہے۔
سیاست دان اور ان کے ورکرز ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارہ نہیں کرتے ،ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارا جاتا ہے، اپنے سوا سب کو غلط اور جھوٹا قرار دے کر نجانے یہ سیاستدان اور ان کے حواری کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں بلکہ ان دونوں میں انتشار پھیلانے والے کام ہیں۔ ہمیں آرمی چیف کی اس اپیل پر کان دھرنا ہوں گے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے قائدین بھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی بجائے عدم برداشت کی بجائے اپنے اندر برداشت پیدا کریں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماضی میں جنرل ایوب ، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جس طرح ملک کی جمہوری بساط کو لپیٹ کر یہاں آمریت قائم کی اس سے ملک میں لسانیت ، صوبائیت اور دیگر مافیاز کو تقویت ملی۔ ان ساری غلطیوں کو اب جنرل جاوید قمر باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں نہایت کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے آئندہ ایسی کسی قسم کی مہم جوئی سے فوج کو دور رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب فوج میں یہ خیال پختہ ہو چکا ہے کہ اسے سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے، تو اب اس کا عملی مظاہرہ سامنے آنا چاہیے۔ سیاست کے دلدل میں سیاستدان ہی دھنسے رہیں تو بہتر ہے۔ بطور ادارہ فوج ایک بہترین نظم و ضبط کی عمدہ مثال ہے ، جہاں جوان سے افسر تک ایک قانون و قاعدہ میں رہتے ہیں۔ یہی فوج کی خوبی اور صلاحیت ہے۔ سیاست کے کھیل کو اب سیاستدانوں کا فرض ہے کہ گند سے صاف رکھیں۔ ایسا موقعہ ہی نہ آنے دیں کہ کسی طالع آزما کا دل للچائے یا منہ میں پانی بھر آئے۔ جمہوری نظام اور قانون کی عملداری کو سختی سے یقینی بنایا جئاے اس پر عمل جی جان سے یقینی بنایا جائے۔ سیاسی جنگ کو ذات اور اداروں تک نہ لے جایا جائے تو ملک میں جمہوری نظام اور آئین کی حکمرانی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
ہم ایک شخص خواہ اس کا تعلق کسی جماعت سے ہو یا ادارے سے اگر یہ تہیہ کر لے کہ اس نے اپنے اپنے مقررہ دائرے میں رہ کر کام کرنا ہے۔ ملک میں جمہوری نظام اور قانون کی عملداری ہو تو عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے۔ پھر جو کوئی امن و امان تباہ کرتا ہے دہشت گردی کرتا ہے یا ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے نشان عبرت بنانے میں کسی کو تامل نہیں ہو گا۔