اسلامی معیشت کا آغاز کیسے؟

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کو سودی نظام کا متبادل نظام تیار کرنے کا حکم دیا لیکن حکمرانوں نے اس جانب عملی قدم نہ اٹھایا۔اگرچہ پاکستان کے متفقہ آئین مجریہ 1973 نے اس کی راہ بھی ہموار کردی لیکن حکومتی سرد مہری کی وجہ سے جماعت اسلامی اور کئی تنظیموں نے ایک طویل علمی ،سیاسی اورعدالتی جدوجہد کی چنانچہ14 نومبر 1991ء کو چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں وفاقی شرعی عدالت کے تین رکنی بینچ نے ملک سے سودی نظام کے خاتمے کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کو 6 ماہ میں سودی قوانین کی متبادل قانون سازی کا حکم دیا۔23دسمبر1999ء کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے 1992ء کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے فیصلے میں سود/ ربا کی تمام صورتوں کو غیرآئینی، غیر قانونی اور غیر اسلامی قرار دے دیاجس کے بعدجنرل پرویز مشرف کے ایماء پر ایک نجی بنک کی 2000ء کی ایک درخواست پر سپریم کورٹ کی پی سی او عدالت نے 24 جون 2002ء کو سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کرکے ربا (سود)کی تشریح کے لیے مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت کوبجھوا دیا۔ 
28 اپریل 2022ء کو( 19سال بعد) وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی شہید، جسٹس محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سْود کو ایک مرتبہ پھر غیرآئینی ، غیر قانونی اور غیر شرعی قرار دیدیا۔عدالتی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ربا/ سود ایکٹ1839ء سمیت سود کی سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقیں غیرشرعی ہیں۔قرض ادائیگی میں تاخیر پر سود لینا غیرشرعی ہے۔حکومت کا اندرونی یا بیرونی قرضوں پر سود دینا ’ربا‘ میں آتا ہے۔ کمرشل بینکوں کے قرض کی رقم سے زیادہ وصولی بھی سود کے زمرے میں آتی ہے اس لئے یکم جون 2022ء تک وفاقی حکومت تمام قوانین میں سے سود’انٹرسٹ ‘کا لفظ فوری طور پر حذف کرے۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بنک، اور دوسرے بین الاقوامی معاشی اداروں اور بن وں کے ساتھ لین دین و بھی سود سے پاک کیا جائے۔وفاقی حکومت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور لین دین کو سْود سے پاک بنانے کی لیے اقدامات کرے۔(مغربی) پاکستان منی لانڈرنگ ایکٹ خلافِ شریعت ہے۔معاشی نظام سے سود کا خاتمہ آئینی ،شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے لہٰذا ملک سے سود کا خاتمہ ہر صورت کرنا ہو گا۔وفاقی شرعی عدالت نے وفاقی حکومت کو حْکم دیا کہ31 دسمبر 2027ء تک پاکستان میں ملے مل طور پر سود سے پاک بنکاری کا اجراء کرے۔نیزوفاقی حکومت کی شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممبران طریقے سے بنکاری اورمعاشی نظام سے سود کا خاتمہ کرے۔وفاقی شرعی عدالت کے دوٹوک فیصلے کے خلاف26 جون 2022ء کو وفاقی حکومت کی ایماء پر سٹیٹ بینک ، نیشنل بینک اورنجی بینکوںیونائٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک اور حبیب بنک نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دی جس میں دعویٰ کیا گیاکہ وفاقی شرعی عدالت نے سپریم کورٹ ریمانڈ آرڈر کے احکامات کو مدنظر نہیں رکھالہٰذا سودی بنکاری کو مزید 20 سال کام کرنے کا موقع دیا جائے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پراپیلوں کے خلاف جماعت اسلامی سمیت مذہبی و سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں شدید احتجاج کیا اور ایک زبردست تحریک چلائی۔رائے عامہ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسلام اور آئین سے متصادم اپیلوں کو واپس لیاجائے چناچہ زبردست عوامی دباؤپر9 نومبر 2022ء کو وفاقی وزیر خزانہ محمداسحق ڈار نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیلوں کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ فیصلے کرنے کا بنیادی معیار قرآن و سنت ہے۔ 12 نومبر 2022ء کو سٹیٹ بینک اور نیشنل بینک نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سْپریم کورٹ میں دائراپیلیں واپس لے لیں۔ سٹیٹ بینک اوراسلامی بینکنگ اعداد و شمار سے ظاہرہوتاہے کہ سْود سے پاک بنکاری نظام قابلِ عملاور عوام کے لئے قابل قبول ہے۔ پاکستان کے موجودہ بینکاری نظام میںاسلامی بینکاری کا حجم تقریباً20 فیصد ہے۔اس وقت پاکستان میں 22 ادارے اسلامی بینکاری کر رہے ہیں جن میں سے 5 ادارے مکمل اسلامی بینک ہیں جبکہ روایتی بینکوں کی کئی شاخیںو بھی اسلامی بنکاری کررہی ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں مجموعی طور پر اسلامی بینکاری کی 3,983 برانچیں کام کر رہی ہیں۔
ہم حکومت پاکستان کو تجویز کرتے ہیں کہ(1)وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق روایتی سودی معیشت کو اسلامی معیشت میں تبدیل کرنے کا نقشہ کار اور نظام الاوقات دے۔(2)وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق 31 دسمبر 2022ء تک پارلیمنٹ سے قانون سازی مکمل کرکے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کرے۔(3)وفاقی وزارتِ خزانہ میں تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام اور ماہرینِ اسلامی معیشت پر مشتمل بااختیارشریعہ سپروائزری بورڈ تشکیل دی جائے اسلامی بنکاری اور اسلامی نظام معیشت کے اجراء و استحکام کے لئے تمام مراحل کی نگرانی کرے۔(4)سٹیٹ بینک،قومی اور نجی و کمرشل و انویسٹمنٹ بینکوں کی اسلامی بینکاری میں منتقلی کے لیے عملی اقدامات کرے۔ (5)حکومت وزارتوں اور سرکاری اداروں کے تمام بنک کھاتے اسلامی بینکاری میں منتقل کرے۔(6)حکومتِ پاکستان، پاکستان سٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ اور آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ سمیت بڑے قومی اداروں اور وزارتِ خزانہ کوبڑی اوراضافی رقومات اسلامی بینکوں میں رکھنے کا پابند بنائے۔(7)حکومتِ پاکستان سکوک یا اسلامی بانڈز کے علاوہ تمام سودی بانڈز پر پابندی عائد کرے۔(8)حکومت پاکستان تمام انفرادی قرضوں پر سْود کے بقایاجات ساقط کرے۔(9) تمام زرعی قرضوں پرسْود ساقط کرے کیونکہ پاکستان کی بڑی آبادی کا انحصار زرعت پر ہے۔(10)حکومت کارپوریٹ قرضوں پر سْود ساقط کرنے کے لیے ’ربا ایمنسٹی اسکیم‘کا اجراء کرے۔

ای پیپر دی نیشن