ملک بھر میں انتظامی بحران شدت اختیار کررہا ہے لیکن سب چپ سادھ کر بیٹھے ہیں۔ وفاق ہو یا صوبے سب اپنی دھن میں مگن ہیں۔ پنجاب کا آئی جی کام چھوڑ کر چلا جاتا ہے ، سی سی پی او کو وفاق کام کرنے نہیں دے رہا ، چیف سیکرٹری بھی طویل رخصت پر جا چکے ہیں۔آخر اس بحران کو کون ختم کرے گا؟ جنوبی پنجاب میں سولہ سیکرٹریز اور ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری کام کررہے ہیں جن کے پاس ایک سیکشن افسر بھی لگانے کا اختیار نہیں تو پھر یہ اربوں کے اخراجات کیوں کیے جارہے ہیں؟ سیاسی شعبدہ بازی کے لیے اس ملک کے وسائل سے کیوں کھیلا جارہا ہے۔ خاص طور پر جب پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان خود بارہا ڈیفالٹ کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں تو پھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے نام پر سفید ہاتھی کیوں پالا جارہا ہے؟ پنجاب میں حکومت بھی پی ٹی آئی کی ہے، اگرچہ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ہیں بات یہی پر ختم نہیں ہو جاتی اور ابھی کہا نیاں اور بھی ہیں۔ ہر محکمہ انتظامی بحران کا شکار ہے۔
پنجاب حکومت جنوبی پنجاب کی عوام کو سہولت فراہم کرنے کے غرض سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لائی اور ابھی تک سو سے زیادہ سینئر افسران کو جنوبی پنجاب میں پوسٹ کیا گیا جہاں ان کی مصروفیت کا معیار یہ ہے کہ وہ کوئی انتظامی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ درجہ چہارم کی بھرتی کے لیے بھی لاہور سیکرٹریٹ کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے۔ کوئی عوامی فلاحی منصوبہ متعارف کروانے کا اختیار نہیں، بس سارا دن دفاتر میں بیٹھ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ قاف لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومت اربوں روپے کے فنڈز جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ پر نچھاور کر رہی ہے مگر افسران بے اختیار ہیں عوام رُل رہے ہیں اور لاہور ہی احکامات جاری کرتا ہے۔ سرکٹ ہاؤس میں قائم جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ اپنی عمارت سے بھی محروم ہے۔ اگر کسی محکمے کے سیکرٹری نے اپنے محکمہ میں سیکشن افسر کا بھی تبادلہ کرنا ہوتا ہے تو وہ لاہور کے طاقتور ایوانوں کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے کے نام پر سیکرٹریٹ قائم کیا گیا تھا اور یہ کہا گیا تھا کہ جنوبی پنجاب کی عوام کے لیے یہ انتظامی قدم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا اور جنوبی پنجاب دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے گا مگر ادھر تو کایا ہی الٹی پڑی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تعینات گریڈ بیس، اکیس کے سیکرٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری اپنے ہم عصر افسران جو لاہور میں تعینات ہیں کی غلامی کرنے پر مجبور ہیں۔ جنوبی پنجاب کے انتظامی سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری گریڈ 17 کے جونیئر افسران کو ادھر ادھر کرنے کے علاوہ کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ کہنے کو تو سینئر افسران سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری، ڈی سی، کمشنر اس ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے ماتحت ہیں مگر وہ ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ یہی حالات جنوبی پنجاب کے پولیس سربراہ کے ہیں۔ چند روز قبل پنجاب کے محکموں کا آڈٹ کیا گیا۔ اس سپیشل آڈٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ پنجاب کے خزانے سے 29 ارب کے لگ بھگ پنجاب حکومت کے اخراجات کا نام و نشان ہی نہیں۔
سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ 29 ارب کہاں چلا گیا اور اس کا ریکارڈ کیوں موجود نہیں؟ اے جی آفس نے صوبائی اداروں اور وزیراعلیٰ کو اس رقم کی نشاندہی کے لیے خط لکھ دیا ہے جو وزیراعلیٰ کو پیش بھی کر دیا گیا ہے اور اسکی گونج کابینہ کے اجلاس میں بھی رہی۔اب ہر محکمے کا سربراہ ایک دوسرے سے نظریں چرا رہا ہے۔ بیوروکریسی وفاق اور صوبے میں تنائو کی وجہ سے کام کرنے کو تیار نہیں۔ لیکن سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی حالات انتہائی ابتر ہیں۔ محکمہ ایکسائز کے سیکرٹری اپنی نجی محفلوں میں اپنی داد رسی کے لیے افسران کی مدد کا منتظر ہے۔ آصف بلال لودھی جن کو ایک سینئر افسر کی طرف سے پوچھا گیا کہ محکمہ ایکسائز میں کرپشن کا کیا شور برپا ہے؟ خاص طور پر راولپنڈی، لاہور، ملتان اور فیصل آباد محکمہ ایکسائز میں سونے کی کان کی حیثیت کیوں رکھتا ہے؟ تو سیکرٹری صاحب نے اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے کہا کہ کانسٹیبل سے لے کر اوپر تک میرے اختیار میں کوئی تبادلہ کرنا نہیں۔ میرے سے بالا بالا ہی ٹرانسفر پوسٹنگ کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ پنجاب میں وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی بڑھتے جرائم کی وجہ سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا پولیس سربراہ کو مشورہ ہے کہ کسی صورت بھی جرائم کو کنٹرول کیا جائے۔ شنید ہے کہ پچھلے ادوار کی طرز پر پولیس مقابلے شروع کیے جا سکتے ہیں۔
نہ صرف پاکستان بلکہ آدھی دنیا کو درپیش اس وقت سب سے بڑے مسئلے اور سوال کا جواب وزیراعظم پاکستان نے دیدیا ہے کہ پاکستان کا آرمی چیف کون ہوگا۔ 38 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے والا مومن جو مردِ مجاہد سیاچن کے گلیشیئر پر ٹھنڈے پانی سے وضو کرتا ہے، ملک و عوام کی محبت سے سرشار وہ جنرل آرمی چیف کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے جس کو آرمی چیف بنانا انتہائی حوصلے اور ہمت کی بات ہے۔ جنرل عاصم منیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد حقیقی طور پر افواج کو سیاست سے کنارہ کش کر دیں گے اور وطن کی سرحدوں کو مضبوط بنائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سنیارٹی پر نمبر ون آنے والے افسر کو آرمی چیف تعینات کیا گیا ہے۔ اس اقدام پر نہ صرف وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف بلکہ پی ڈی ایم کے تمام رہنما آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، نوازشریف، مولانا فضل الرحمن اور باپ کے علاوہ ایم کیو ایم کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے کہ تاریخ میں سنیارٹی میں پہلے نمبر والے افسر کو آرمی چیف نامزد کیا گیا ہے۔ عاصم منیر کی نامزدگی سے ملک کو یہ ثمر بھی ملے گا کہ کوئی جنرل سپر سیڈ ہو کر اپنے عہدے سے مستعفی نہیں ہوگا اور یہ ہمارے قیمتی اثاثے اپنی اپنی ریٹائرمنٹ تک ملک و قوم کے لیے خدمات جاری رکھیں گے۔