برسلزمیں کشمیریوں کی حالتِ زار پر مبنی تصاویر کی نمائش 

کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرتا جب مقبوضہ کشمیر سے وہاں ناجائز قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیری نوجوانوں کی شہادتوں کی خبر نہ آئی ہو۔اس کے باوجود کشمیری تحریک ِ آزادی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ دنیامیں کوئی بھی ایسا خطہ نہیں جہاں کی آبادی قیدیوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبورہو۔ جیل بھی ایسی جہاں گھر سے نکلتے وقت کوئی نہیں جانتا کہ کب اور کہاں پولیس انہیں بغیر کسی جرم کے گرفتار کر لے ، غائب کردے یا بھارت سے غداری کا مرتکب قرار دے کر گولی مارد ے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی آبادی اور وہاں تعینات بھارتی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق وہاں 12کشمیریوں پر ایک بندوق بردار بھارتی فوجی موجود ہے۔ اگر 12کشمیریوں میں سے کم سن بچوں ، عمر رسیدہ مردخواتین اور مریضوں کو نکال دیا جائے تو پھر ہر پانچ نوجوان مردو خواتین پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے تاکہ ان کی کڑی نگرانی کی جاسکے۔ لیکن بھارت سرکار انتہائی ڈھٹائی سے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں امن و شانتی اور تعمیرو ترقی کی کہانیاں سنارہی ہے۔ جبکہ بھارتیوں کے خلاف مقبوضہ کشمیر میں پائی جانے والی نفرت کا یہ عالم ہے کہ بھارتی آرمی چیف بھی وہاں بغیر اطلاع کے خفیہ دور ے پر اس طرح جاتا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج کے مقامی کمانڈروں کے علاوہ نچلی سطح پر فوجیوں کو بھی اس دورے کا علم کم ہی ہوتا ہے اور اگر بھارتی وزیراعظم دورے پر جائے تو پوری وادی میں کرفیولگادیاجاتا ہے۔ اس کے باوجود کرفیو کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہزاروں کشمیری بھارت سے آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ جنہیں بدترین تشدد، بیلٹ گن کے چہرے مسخ کردینے والے کارتوسوں اور گولیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بسنے والوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کا راگ الاپنے والے تمام بڑے ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی اور سیاسی مفادات و ابستہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کی شکل میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود امریکہ وبرطانیہ ہوں یا دیگر قابل ذکر مغربی ممالک ،ان میں سے کوئی بھی بھارت کو ان جرائم سے روکنے کو تیار نہیں ۔ اس کے باوجود مغربی ممالک میں آباد کشمیری وہاںکے عوام کی آگاہی کیلئے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 
یورپی ہیڈ کوارٹر برسلز میں ’’کشمیرای یوویک‘‘کی تقریبات اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔یورپی یونین میںکشمیر کو نسل کے طرف سے ’’کشمیرای یوویک‘‘کو کئی برسوں سے سالانہ تقریب کی شکل دی جاچکی ہے۔ جس میں سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں۔ یورپی پریس کلب میں خصوصی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ برسلز میں موجود نیا بھر سے آئے ہوئے صحافتی نمائندے پریس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اظہار خیال کرنے والوں سے سوالات کرتے ہیں۔ عالمی سول سوسائٹی کی تنظیموں ، یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کے علاوہ انسانی حقوق تنظیموں کے نمائندگان بھی سمینار کے دوران بھارت کی غلامی میں زندگی گزارنے والے کشمیریوں کی مشکلات سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ 
مسئلہ کشمیر پر یورپی پارلیمنٹ کے ممبران اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں تاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حقیقی حالات سے مکمل آگاہی حاصل کی جاسکے ۔کوشش کی جاتی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں وہاں ناجائز قابض بھارتی فوج کی طرف سے جاری مظالم کی روک تھام کیلئے متفقہ طورپر قرارد اد منظور کی جاسکے ۔ ہرسال منعقد کی جانے والی ’’کشمیرای یوویک‘‘میں کشمیریوں کے خلاف بھارتی سیکورٹی فورسز کے غیر انسانی واخلاقی ہتھکنڈوں کی منظر کشی کیلئے تصویری نمائش تقریب میںلازمی جز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نمائش کو دیکھنے کیلئے صرف برسلز ہی نہیں یورپی یونین کے دیگر شہروں سے بھی لوگ خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں۔ 
رواں برس ’’کشمیرای یوویک‘‘کا آغاز 14نومبر 2022ء کو تصویر ی نمائش کے ساتھ ہوا۔ یہ نمائش 27نومبر 2022ء تک جاری رہے گی۔ اس سال پیش کی گئی تصاویر بیلجیئم کے نامور فوٹو جرنلسٹ سندر گربیانے کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں جو اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے دورے کے دوران عکس بند کی تھیں۔ ان تصویروں میں کشمیر کی ثقافت و خوبصورتی کو کشمیریوں پر بھارتی فوج و سیکیورٹی اداروں کے سفاکانہ طرز عمل کے ساتھ ملاکر اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ دیکھنے والے جان سکیں کس طرح جنت نظیر کشمیر کو بھارتیوں نے جہنم زار بناکے رکھ دیا ہے۔14 نومبر کو تصویری نمائش کے ساتھ تقریب کا افتتاح کرتے ہوئے کشمیر کو نسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے اپنے خطاب میں عالمی برادری ، خاص طور پریورپی یونین سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ دنیا مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے جرائم کے فوری خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور بھارت پر اقوام متحدہ کی قرارداد وں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو 1947ء سے ختم نہ ہونے والی مشکلات کا سامنا ہے جس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ پرامن ماحول کشمیریوں کا حق ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں منظور کی گئی قراردادوں کیمطابق زندگی گزارنے کیلئے خود ارادیت کا حق مانگتے ہیں۔ ’’کشمیرای یوویک‘‘ہر سال کی طرح اپنے اختتام کے قریب ہے۔ لیکن کشمیریوں کی قید بدستور جاری رہے گی ۔ زیادہ افسوس اسلامی ممالک کے رویے پر ہے جو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے بھارت سے جڑے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں یہ ادراک ہی نہیں کہ کشمیر کا مسئلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان ایک بڑے حل طلب تنازعے کے طور پر موجود ہے ۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ماضی میں یہ دونوں ممالک کشمیر کے مسئلہ پر تین جنگیں لڑ چکے ہیںگو اس دورمیںیہ ایٹمی اسلحہ سے لیس نہیں تھیں۔ تاہم اب اگردونوں ملکوں کے درمیان جنگ ہوئی تو کچھ نہیں بچے گااور عرب ممالک کی اربوں ڈالر کی وہ سرمایہ کاری بھی راکھ ہوجائے گی جو انہوں نے بھارت میں کر رکھی ہے ۔ 

ای پیپر دی نیشن