جمعۃ المبارک،29  ربیع الثانی ھ، 1444، 25 نومبر 2022ء 

سرکاری وسائل ذاتی تشہیر پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں۔ سپریم کورٹ 
اب کیا کریں ہمارے ہاں اگر کوئی ایک کلو گھی کا پیکٹ یا 5 کلو آٹے کا تھیلا بھی امداد کے طور پر عطیہ یا خیرات میں تقسیم کرتا ہے تو دس افراد کو تالیاں بجانے اور اس پیکٹ اور تھیلے پر اپنی تصویر اور نام کندہ کرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ خدا کو راضی کرنے کی بجائے ان کاموں میں نمائش اور نام و نمود کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔ بہت سے صاحب ذوق کو کسی علاقے میں اگر نالی یا گٹر کا افتتاح کرتے ہیں تو اس پر بھی اپنے نام اور تصویر والی تختی لگانا فرض عین سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سب وہ اپنی جیب سے نہیں سرکاری فنڈز سے بناتے ہیں۔ اب خود ہی اندازہ کر لیں نیچے بدرو بہہ رہی ہو یا گٹر ابل رہا ہو اس کے اوپر تعمیر کندہ کا نام اور تصویر والی تختی آویزاں ہو تو کیا تاثر ابھرے گا یہ خوشی کا مقام ہو گا یا شرمندہ ہوگا۔ کوئی کام اگر رضائے خدا اور خدمت خلق کے لیے کیا جائے تو اس کا دنیا و آخرت میں بہتر اجر ملتا ہے۔ افسوس ہمارے ہاں سب اس کے برعکس دکھاوے اور شہرت کے طالب نظر آتے ہیں۔ حکومتی ادارے ہوں یا عہدیداران ترقیاتی کام کرانا ان کا فرض ہے۔ وہ اگر سرکاری وسائل ذاتی تشہیر پر صرف نہ بھی کریں تب بھی لوگ ان کے کاموں کی وجہ سے جان لیتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ترقیاتی کام کون کروا رہا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کا دور ہے۔ لوگوں میں شعور ضرورت سے کچھ زیادہ ہی آ چکا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ابھی تک ذاتی شہرت کے لیے وہی پرانے روایتی طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ نام و نمود اور نمائش کو اہمیت دی جاتی ہے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ضرورت عوام کو ہر سطح پر ریلیف دینے کی ہے۔ عوام اپنے کو ریلیف دینے والوں کو کبھی فراموش نہیں کرتی۔ 
٭٭٭٭٭
موٹروے زمینوں کی خریداری میں کرپشن۔ ڈپٹی کمشنر تاشقین ملک سے فرار 
نوشہرو فیروز سندھ میں واقع ہے تو ظاہر ہے یہ ڈپٹی کمشنر اسی علاقے کا ہو گا۔ سندھ میں موٹروے کی تعمیر کے سلسلے میں جس طرح اربوں روپے کی کرپشن کے کیس سامنے آ رہے ہیں اس سے تو لگتا ہے اس صوبے میں موٹروے کا نام ’’کرپشن وے‘‘ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ اس موٹروے کی گنگا میں کس کس نے جی بھر کر نہایا ہے۔ حکومت سندھ کیا آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ اس کا کام کیا ہے۔ صوبائی حکومت کیوں گڈگورننس کے نام پر بیڈ گورننس کو فروغ دے رہے ہیں۔ کیا بڑے بڑے سیاستدان، وڈیرے اور سردار اور سرکاری افسران اتنے خودسر ہو گئے ہیں کہ وہ کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ نہایت غلط طرز عمل ہے اس کے نتائج بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔عوام میں برداشت کا مادہ ختم ہو گیا ہے۔ لوگ کرپشن اور کرپٹ افسران سے تنگ آئے ہیں۔ موٹروے کرپشن کے بعد جب سیلاب زدگان کی امداد کی رقم کے گھپلے سامنے آئیں گے تو شاید سندھ حکومت کو منہ چھپانے کے لیے بھی جگہ نہیں ملے گی۔ اس کا سارا فائدہ سیاسی مخالفین اٹھائیں گے جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔ یوں خطرہ ہے کہ سندھ پر طویل عرصہ حکمرانی کرنے والے سیاستدان اور خاندان کہیں آنے والے الیکشن میں عوامی غیض و غضب کا نشانہ نہ بن جائیں اور تبدیلی کے نام پر نئے آنے والوں کو ووٹ دے کر سندھ کا تخت ان کے سپرد کر دیں تاکہ کرپٹ عناصر سے جان چھوٹ سکے۔ 
٭٭٭٭٭
حکومت کا موبائل فون قسطوں پر دینے کے منصوبے کا افتتاح
یہ موبائل فونز کم آمدنی والوں کو دئیے جائیں گے جس کی رقم قسطوں میں وصول کی جائے گی۔ خدا جانے ہمارے منصوبہ سازوں کے ذہن نارسا میں ایسے لایعنی خیال کہاں سے آتے ہیں۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں بسنے والے 22 میں سے کم از کم 18 کروڑ شہری ایسے ہیں جو ذاتی موبائل رکھتے ہیں۔ اب کم آمدنی والوں کو 20 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مالیت کے موبائل 20 یا 30 فی ایڈوانس پر قسطوں پر ملیں گے۔ کیا موبائل رکھنا اتنا ضروری ہو گیا ہے کہ حکومت قسطوں پر دے رہی ہے۔ اگر ایسا کچھ کرنا ہی تھا تو  بے روزگاروں کو ریڑھی لگانے ٹھیلا چلانے کرائے پر موٹر سائیکل چلانے کے لیے دیتی تاکہ بیروزگار چوری ڈکیتی کی بجائے عزت سے روٹی کماتے۔ مگر افسوس کہ فرعون کو ’’موبائل‘‘ کی نہ سوجھی۔ اس موبائل کی وجہ سے ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ لاکھوں نوجوان بے راہ روی کی طرف گامزن ہیں۔ جسے دیکھو موبائل اٹھائے کان میں ٹوٹیاں لگائے خدا جانے کس دنیا میں رہتا ہے۔ لگتا ہے ساری دنیا کا بوجھ ان کے سرپر ہے سفر ہو یا خضر بے چارے ہر وقت مصروف رہتے ہیں۔ سر کھجانے کو فرصت نہیں اور آمدنی دو ٹکے کی نہیں والی بات ان پر صادق بیٹھتی ہے۔ اوپر سے اس موبائل کی وجہ سے جو فحش مواد ہر شخص کی ذاتی زندگی میں تنہائی میں داخل ہو رہا ہے اس نے علیحدہ ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ زیادتی ،اغوا، قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ نوجوان عشق و محبت کے نام پر زندگی تباہ کر رہے ہیں۔ کیا حکومت اس بات سے واقف نہیں کہ ہم موبائل کا غلط استعمال کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ موبائل عشق لڑانے فحش مواد دیکھنے ، ٹک ٹاک یا سلفیاں بنانے کے لیے نہیں بنا تھا ہم نے اس کارآمد آلے کو بھی فضول کاموں میں لگا دیا ہے۔ اب اس قسطوں پر موبائل کی فراہمی میں حکومت کونسا اچھا ترقیاتی کام کر رہی ہے ذرا اس کا ہمیں بھی بتایا جائے۔ 
٭٭٭٭٭
بھارت میں ایک قانون ہندوئوں دوسرا مسلمانوں اور سکھوں کے لیے ہے۔ سکھ رہنما گیانی ہرپریت سنگھ 
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ یہ عقدہ بہت تاخیر سے سکھ رہنمائوں پر کھلا ہے کہ بھارت میں دو قانون ہیں ایک ہندوئوں کے لیے اور ایک مسلمانوں اور سکھوں کے لیے۔ یہ وہ دوغلی پالیسی ہے جو نہرو دور سے چلی آ رہی ہے اور اب مودی دور میں اسے بام عروج پر پہنچا دیا گیا ہے۔ سکھوں کو گولڈن ٹمپل کی بربادی کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے ورنہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت پہلے سکھوں کو حقیقت بتلا دی تھی مگر اس وقت ماسٹر تارا سنگھ نے لاہور میں کرپان لہرا کر خود کو سنگھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ حقیقت ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن آج سکھوں کی اکثریت دلی طور پر یہ حقیقت مان چکے ہیں چاہے اس کا اظہار کریں یا نہ کریں۔ سنت بھنڈرانوالہ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں آباد سکھ علیحدہ خالصتان کے لیے ریفرنڈم کرا رہے ہیں خود بھارتی پنجاب میں ہزاروں سکھ اس خواب کی تعبیر کے لیے گردن کٹوا چکے ہیں۔ اب بھارت میں سری اکال تخت کے جتھا دار گیانی ہرپریت سنگھ نے مودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ سکھوں کی نسل کشی بند کرے۔ اگر بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا مطالبہ غلط نہیں تو سکھوں کا خالصتان کا مطالبہ بھی غلط نہیں۔ بھارت میں سکھوں کی تذلیل اور ان کے خلاف مہم بند کی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بھارت میں رہنے والوں کو پتہ چل گیا ہے کہ ہندوئوں کے لیے قانون الگ ہے اور اقلیتوں جن میں مسلم اور سکھ شامل ہیں کے لیے الگ قانون ہے جس کے مطابق انہیں جانور سمجھا جاتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن