جمال الملت والدین حضرت خواجہ حافظ محمد جمال اللّٰہ ملتانی چشتی نظامی حالات ودینی مذھبی تبلیغی خدمات و مہمات :
صاحبزادہ حفیظ اللہ شاہ مہروی
قطب دوراں سراج سالکاں سلطان عارفاں حضرت خواجہ خواجگان خواجہ حافظ محمد جمال اللہ ملتانی چشتی نظامی کا شمار برصغیر پاک و ہند کے جلیل القدر مشائخ عظام اولیا کرام میں ہوتا ہے قبلہ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہاروی رحمتہ اللہ علیہ کے یاروں اور خلفا ء اعظم میں آپ کا شمار ہوتا ہے ۔ والد گرامی کا اسم گرامی حضرت مولانا محمد یوسف بن عبدالرشید تھا ۔ آپ علوم ظاہری و باطنی کے بلند پایہ عالم عارف محدث مفسر فقیہہ صاحب و جد وسماع تھے جب آپ کے دل میں طلب خدا و شوق لقائے کبریا پیدا ہوا تو چند روز و قطب الاقطاب غوث زماں حضرت شاہ رکن الدین و العالم نوری حضوری کے روضہ مبارک میں رہے ہر رات قرآن مجید کا ختم کرکے ان کی روح کو بخشتے پھر وہیں سوجاتے اور پیر کامل کے لیے التماس کرتے ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ رکن عالم اور حضرت کوخواجہ نور محمد مہاروی قبلہ عالم ایک جگہ بیٹھے ہیں اور قبلہ حافظ جمال اللہ بھی موجود ہیں ۔ حضرت شاہ رکن عالم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر قبلہ عالم کے ہاتھ میں دیا اور فرمایا حافظ صاحب یہ تمہارے پیر ہیں ان کا نام نور محمد ہے جب بیدار ہوئے تو حافظ صاحب ملتان سے مہار شریف پہنچے اور آپ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو قبلہ عالم نے ان سے باکمال عزت ملاقات کی اور پوچھا کہ تمہار ا وطن کونسا ہے عرض کیا ملتان شریف کیسے آئے عرض کیا بیعت کے لیے فرمایا کچھ علم بھی پڑھا ہے ۔آپ نے عرض کیا قرآن پاک حفظ کیا ہے اس کے بعد مرشد نے بیعت فرمایا اس وقت مولانا محمد حسین چنہڑ بہاولپوری بھی ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے حضرت حافظ صاحب کو پہچان لیا نہایت ادب سے ملاقات کی حضور قبلہ عالم نے پوچھا مولانا آپ ان کو جانتے ہیں عرض کیا حضور یہ بہت بڑے عالم ذکی مباحثے اور مناظرے میں کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ملتان شریف میں یہ ہمارے ہمدرس تھے ان کو طالب علمی کے زمانہ میںلوگ علامتہ العصر کہتے تھے یہ جان کر قبلہ حافظ صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا مجھ سے اپنا علم کیوں چھپایا ہے ۔ حضور میں نے سنا ہے کہ فقرا ء علماء سے احتراض کرتے ہیں قبلہ عالم نے فرمایا ہم تو علماء کے چاہنے والے ہیں ہمیں تو علما ہی سمجھتے ہیں جاہل بے چارے کیا سمجھیں گے طبقہ علماء سے ہم خوش ہیں۔
حضرت حافظ صاحب چند دن بعد دارالامان ملتان شریف و اپس لوٹے ۔ آپ کے علمی تبحر اور دلچسپیوں کا اندازہ ملغوظات سے ہوتا ہے علم و فضل کا یہ حال تھا کہ باریک سے باریک اور دقیق سے دقیق مسائل آپ سے پوچھے جاتے تھے اور وہ نہایت شافی جواب دیتے تھے۔ مسلہ وحدت الوجود سے خاص دلچسپی تھی امام اکبر اور مولانا عبدالرحمن جامی کی تصانیف پر پورا عبور تھا جب ان کے رموز کو سمجھاتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک سمندر موجیں مار رہا ہے۔
حضرت حافظ جمال ملتانی نے ملتان میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا ۔ یہ مدرسہ علم و فضل کا اعلیٰ مرکز تھا ۔ آپ کے اس مدرسہ میں دیگر اکابرین امت کے علاوہ نبراس کے مصنف علامتہ العصر علامہ حافظ عبدالعزیز پرہا روی بھی پڑھتے رہے ۔ ایک دفعہ مولانا پرہاروی دیوار سے ٹیک لگا کر روئے جا رہے تھے آپ نے پوچھا کیوں رو رہے ہیں ۔عرض کیا سبق یاد نہیں ہوتا اور طبعیت میں ملکہ بھی نہیں ہے ، فرمایا آؤ میرے ساتھ سبق کا تکرار کرو ۔ مولانا نے جوں ہی آپکی خدمت آکر سبق دھرایا تو قدرت الہیٰ سے بے پایا اور استاد کی مہربانی سے علوم عقلیہ و نقلیہ کے دروازے کھل گئے اور انکی ذکاوت اور ذہانت اتنی بلند ہو گئی ۔ جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور سینکڑوں کتابیں انہوں نے قلیل عمر میں تصنیف فرمائیں ۔ حضرت حافظ صاحب درس تدریس کی مصروفیت کے ساتھ عملی جہاد سے بھی خوب واقف تھے ان کی شجاعت ، ہمت اور استقلال نے مسلمانوں کے مضمحل اعضاء میں نئی روح پھونکی ۔ سکھوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مقابلہ انہتائی مردانگی سے کیا جب حالات بہت خراب ہو گئے تو خود میدان جنگ میں اترے۔ سکھوں کے حملہ کی اطلاع ملی تو برج قلعہ ملتان پر خود تیر کمان سنبھا لی ۔آپ شریعت مطہرہ پر سختی سے عمل پیراتھے ۔
فرائض اور سنت نوافل اور مستحبات تک پابند ی فرماتے۔آپ کا لباس خوردونوش ،اٹھنا ،بیٹھنا، ہر عمل سنت رسول کے مطابق ہوتا تھا ۔ آپ فرماتے معرفت حق کا بہترین طریقہ وہ ہے جو مشائخ کا ہے جو نبی پاک سے معتبرذریعہ سے پہنچا ہے ۔آ پ نہایت با اخلا ق بزرگ تھے ۔ مناقب فخریہ میں لکھا ہے ۔غریبوں کی دلجوئی کو اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ غریب اور امیر سب کے ہاں دعوت پر جاتے لیکن غریب کے ہاں اس طرح جاتے کہ خوشی کا اثر چہرے پر ظاہر ہونے لگتا کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے ۔بلکہ اگر کوئی ایسی بات کرتا تو اس کو ملامت کرتے جب تک مریدین کھانے سے فراغت نہ پاتے آپ تناول فرماتے رہتے ۔
بچوں سے شفقت سے باتیں کرتے اگر بات ناگوار گزرتی تو منع نہیں فرماتے بلکہ مثال دے کر سمجھاتے لوگوں نے درویشی اور پیر بننے کو آسان سمجھا ہے جب کہ آپ فرماتے ہیں درویش اور پیر بننے میں شدید مجاہدے اور ریاضتیں ہیں اور مشکل عبادتوں سے خود کو نکھارنا ہے ۔ خلق خدا کی خدمت تبلیغ و اصلاح کا فریضہ ترویج دین اشاعت اسلام تفسیر وحدیث کی تدریس کتب تصوف کی تعلیم کژت سے نوافل کی ادائیگی کثرت سے روزے، قرآن پاک کی تلاوت درود شریف اسم ذات آپ کے روزانہ کے معمولات تھے اور مفلس اور مقروض مریدوں سے نذرانہ وصول نہ کرتے بلکہ اپنی طرف سے ان کی مدد فرماتے تھے۔
آپکے مرید بے شمار تھے اور خلفا کرام بھی بہت تھے مشہورترین خلفا میں مولانا خدا بخش ملتانی و خیر پوری مولانا عبدالزاق، مولانا حامد علامہ عبدالعزیز پیرہاروی ، زاہد شاہ ، سید بلند شاہ ، مولانا منشی غلام حسن شہید ، صاحبزادہ غلام فرید ، قاضی محمد عیسی ٰ خانپوری ، حافظ محمد موسی صدیقی کے اسماء مبارک قابل ذکر ہیں۔ کرامات سے اگرچہ آپ نے اجتناب فرمایا مگر قارئین کے ذوق کے لیے چند تحریر کی جاتی ہیں لیہ شہر کے ایک قاضی ایک مشکل کام کے لیے حاضر ہوئے آپ نماز فجر سے فراغت کے بعد جلدی سے اٹھے اور مصلیٰ دوسری طرف بچھایا اور مراقبے میں سر جھکایا میں بھی آپ کے پیچھے چپ بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا حضرت قبلہ مصلی سے ایک ہاتھ اوپر فضا میں بیٹھے ہوئے ہیں پھر زمین پر اترے اور مصلی پر بیٹھ گئے پھر اسی طرح ہوا میں بلند ہوتے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔میری سمجھ میںنہیں آتا تھا کہ کہاں تشریف لے گئے تھوڑی دیر بعد فضا میں کوئی شکل نمودار ہوئی اور فضا کی بلندی سے زمین پر اترنے لگی جب میں نے غور سے دیکھا تو حضرت قبلہ کا وجود مسعود تھا ایک ہاتھ کی بلندی پر آ کر رک گیا ۔ پھر مصلیٰ پر آ کر بیٹھ گئے اور سر مبارک مراقبے سے اٹھا کر کلمہ شہادت پڑھا اور مجھ کمترین کی طرف توجہ اور دلجوئی فرمائی۔
ایک بزرگ جو شرف غلامی رکھتا تھا بیان کرتا ہے کہ آدھی رات کو حضرت حافظ صاحب اٹھے اور قلعہ ملتان کی طرف چل پڑے ۔میں چپکے سے حضور کے پیچھے روانہ ہوا کہ دیکھوں آپ کہاں جاتے ہیں ۔ جب قلعہ کے بیرونی دروازے پر گئے تو اچانک دروازہ خود کھل گیا کہ لوگوں کو پتہ بھی نہ چلا اس کے بعد اندرونی دروازے پر پہنچے تو وہ کھل گیا ۔حضرت اندر داخل ہوئے اور حضرت غوث العالمین بہاؤالدین کے مزار مبارک پر دیر تک مصروف فاتحہ رہے اس کے بعد باہر تشریف لائے اور حضرت شاہ رکن عالم کے مزار پر حاضری دی اور دروازے اسی طرح خود بخود کھلتے گئے اور یہاں کافی دیر فاتحہ میں مشغول رہے پھر باہر تشریف لائے اور قلعہ کے غربی دروزے پر پہنچے اور وہ دروازہ بھی اسی طرح کھل گیا اور آپ دریا کے کنارے پر وضو کرنے بیٹھ گئے دریا کا پانی بہت نیچے تھا ۔آپ کے بیٹھتے ہی پانی اوپر امڈ آیا ۔آپ نے آسانی سے وضو فرمایا اور نماز تہجد ادا کی ۔ اس کے بعد اپنے آستانہ پر واپس لوٹے جب قریب پہنچے تو نظر مبارک مجھ پر پڑی اور فرمایاخبردار یہ راز فاش نہ کرنا ۔
حضرت کے ایک غلام نے کنواں کھودا اس کا پانی نہایت کڑوا تھا ۔ اتفاق سے حضرت قبلہ کا ادھر سے گزر ہوا ۔ اس نے درخواست کی کہ حضور ادھر تشریف لے آئے ہیں تو دعا فرمائیں تو عین کرم ہو گا چنانچہ قبلہ اس کے کنواں کے پاس تشریف لے گئے اور اپنا لعاب دہن مبارک اس میں ڈالا اور اس کا پانی میٹھا ہو گیا ۔ ایک کافر نے بھاری لشکر کے ساتھ ملتان پر چڑھائی کی اور چاروں طرف سے محاصرہ تنگ کر لیا اس روز حضرت قبلہ مع خدام محصور ہو گئے اور نواب مظفرالدین قبلہ کی خدمت اقدس میں آئے اور عرض کیا کہ اس معاملہ کا انجام کیا ہو گا ۔ آپ نے فوراً جواب میں فرمایا کہ انشاء اللہ انجام بخیر ہے چنانچہ وہ سنگین معاملہ رفع ہو گیا۔
ٓٓآخری دن سکرات کی وجہ سے نماز فجر کے بعد اضطراب بڑھ گیا اور بے قراری میں اضافہ ہوا اور ظاہری آنکھیں بند فرمائے ہوئے اور زوال سے پہلے اپنے اعضاء مبارک خود سیدھے کیے اور ہاتھ مبارک سے یوں اشارہ فرمایا جیسے کوئی چیز مانگ رہا ہو خادم جلدی تیمم کا ڈھیلہ لایا ۔آپ نے تیمم فرمایا اور ناف کے نیچے نماز کی نیت کرتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا ئے اور پھر باندھے اس حال کو دیکھتے ہوئے تمام خدام حیران رہ گئے اور موجود خدام میں حضرت خواجہ خدا بخش خیر پوری نے رونا شروع کر دیا اور فرمایا میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ جب بھی اولیا اللہ کے خدا سے ملنے کا وقت قریب ہوتا ہے تو انہیں نماز یاد آتی ہے۔ مختصر یہ کہ آپ نے دوسری دفعہ اپنے ہاتھ مبارک کانوں کی لو تک اٹھائے اور ناف کے نیچے باندھے پھر تیسری مرتبہ ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے کہ آپ کی روح پر فتوح حالت نماز میں قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور بارگاہِ اقدس میں پہنچ کر ابدی سکون حاصل کر گئی جب کمرہ مبارک میں تختہ غسل پر اتارا تو حضرت خواجہ خدا بخش خیر پوری اور دیگر خدام نے زبان سے ذکر ہُو کی آواز سنی ۔
آپکی ولادت با سعادت 1160 ھ بمطابق 1745عیسوی اور 5 جمادی الاول بروز بدھ 1226 ھ بمطابق 29 مئی 1811 66 سال کی عمر میں وصال فرمایا ۔ آپکے خلیفہ اعظم حضرت خواجہ خدا بخش ملتانی نے ہزاروں علما و مشائخ کی موجودگی میں آپ کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھائی ۔تیسرے روز قل خوانی ہوئی ۔ نواب مظفر الدین شہید اور حضرت صاحبزادہ نور احمد مہاروی اور علماء و مشائخ نے مولانا خدا بخش ملتانی و خیر پوری کو سجادگی کی دستار باندھی تاریخ مشائخ چشت ۔