اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے ریکوڈک منصوبے سے متعلق دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریکوڈک منصوبہ ماحول دوست ہونے سے متعلق جواب طلب کر لیا۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے بلوچستان میں پانی کی سہولت محدود ہے، ریکوڈک پراجیکٹ کے لیے بلوچستان میں پانی کہاں سے آئے گا؟۔ عدالت کو بتائیں کہ ماحول کے بچاؤ کے لیے ریکوڈک معاہدے میں کیا اقدامات طے کیے گئے ہیں۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے جواب دیا کہ بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر وافر مقدار میں پانی کے ذخائر موجود ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا خطہ پوٹھوہار میں سیمنٹ پلانٹس لگنے سے پورے علاقے میں پانی کی کمی کا سامنا ہوا تھا، بلوچستان میں بارشیں کم ہوتی ہیں، واٹر سکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ عدالت قانون کے تحت عوام الناس کے حقوق کی حفاظت عدالت کرے گی۔ عدالت نے اس موقع پر ریمارکس دیئے ملک پر بہت تجربے ہو چکے مزید تجربوں کے متحمل نہیں ہو سکتے، عالمی ادارے پاکستان پر 9 ارب ڈالر کے جرمانے کے عوض بیرونِ ملک اثاثے ضبط کرنے کی کوشش میں تھے۔ وکیل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ ایک اور کمپنی بھی پاکستان میں 10 ارب ڈالر کے جرمانے کے ساتھ سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا لگتا ہے ایک اور سرمایہ کار کمپنی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوئے ہیں جو نظر نہیں آ رہی۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے دوران سماعت کہا حکومت بلوچستان 2013 میں ریکوڈک منصوبہ کالعدم ہونے کے بعد مقدمات بھگت رہی ہے، 2013 میں یہی کنرانی صاحب ایڈووکیٹ جنرل تھے، حکومت بلوچستان 2013 سے اب تک عالمی عدالتوں میں مقدمات میں 8 ارب روپے خرچ چکی ہے۔
ریکوڈک صدارتی ریفرنس، سپریم کورٹ نے منصوبہ کے ماحول دوست ہونے کی رپورٹ طلب کر لی
Nov 25, 2022