پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں!!!!!

Nov 25, 2023

محمد اکرام چودھری

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب مسلمان ( ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا (بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو) لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے (اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور سوا قد قامت الصلوة کے تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ کہیں۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا جب مسلمان زیادہ ہوگئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آگ روشن کی جائے۔ یا نرسنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔ لیکن آخر میں بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر کے ایک ایک دفعہ۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر بھی ختم ہوجاتی ہے تو شیطان دوبارہ آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاد دہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابو سعید خدری صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مو¿ذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید ؓ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  سے سنا ہے۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔ انس ؓ نے کہا کہ ہم خیبر کی طرف گئے اور رات کے وقت وہاں پہنچے۔ صبح کے وقت جب اذان کی آواز نہیں سنائی دی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ چلنے میں میرے قدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے چھو چھو جاتے تھے۔ انس ؓ نے کہا کہ خبیر کے لوگ اپنے ٹوکروں اور کدالوں کو لیے ہوئے (اپنے کام کاج کو) باہر نکلے تو انہوں نے رسول اللہ کو دیکھا، اور چلا اٹھے کہ محمد واللہ محمدپوری فوج سمیت آگئے۔ انس ؓ نے کہا کہ جب نبی کریم  نے انہیں دیکھا تو آپ نے فرمایاخیبر پر خرابی آگئی۔ بیشک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایاکہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مو¿ذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاءاور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے تو ضرور گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مجھے ام المو¿منین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی عادت تھی کہ جب مو¿ذن صبح کی اذان صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد دے چکا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اذان اور تکبیر کے بیچ نماز قائم ہونے سے پہلے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے تھے۔ 
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں یا (یہ کہا کہ) پکارتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہوجائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہوگئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے(طلوع صبح کی کیفیت)بتائی۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انہیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح (فجر ہوتی ہے) زہیر راوی نے بھی شہادت کی انگلی ایک دوسری پر رکھی، پھر انہیں دائیں بائیں جانب پھیلا دیا۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ (عہدرسالت میں) جب مو¿ذن اذان دیتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور(مغرب میں) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداو¿د طیالسی نے شعبہ سے اس(حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔ ام المو¿منین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ جب مو¿ذن صبح کی دوسری اذان دے کر چپ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کھڑے ہوتے اور فرض سے پہلے دو رکعت (سنت فجر)ہلکی پھلکی ادا کرتے صبح صادق روشن ہوجانے کے بعد پھر داہنی کروٹ پر لیٹ رہتے۔ یہاں تک کہ مو¿ذن تکبیر کہنے کی اطلاع دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم  کے پاس آتا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاءفرمائے آمین

مزیدخبریں