حضرت رابعہ بصریؒ جب قافلے کے ہمراہ پہلے حج کے سفر پر روانہ ہوئیں تو راستے میں ان کی گدھی مر گئی۔ قافلہ ان کو بیاباں میں تنہا چھوڑ کر آگے چل دیا۔ رابعہ بصری بڑے اعتماد کے ساتھ رب سے گلہ کرنے لگیں کہ پہلے تم نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور اب مجھے راستے میں بے آسرا چھوڑ دیا۔ کیا کوئی اپنے مہمان دوست سے ایسے بھی کرتا ہے۔ اللہ نے دوست کا گلہ سن کر گدھی کو زندہ کردیا۔ جب رابعہ بصری مکہ کے قریب پہنچیں تو خانہ کعبہ کو اپنی جانب آتے دیکھا ۔ رابعہ بصری نے کہا میں اس گھر کو دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ اس کے مالک اور مکین کا دیدار کرنے آئی ہوں۔ غیب سے ندا آئی رابعہ یہ تم کیا کہ رہی ہو تمھیں معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام میری ایک جھلک کی تاب نہیں لا سکے تھے۔ یہ تو اولیاءکرامؒ کے روحانی سلسلے ہیں۔ جیسے غالب نے کہا تھا:
ہے سرحدِ ادراک سے پرے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پاکستان کے زندہ سینئر ترین صحافی ادیب اور دانشور محترم الطاف حسن قریشی کا پہلا سفر نامہ حج ’ قافلے دل کے چلے‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ میں نے اس سفر نامہ کے چند باب پڑھے ہیں۔ غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے:
ہیں دنیا میں اور بھی سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
محترم الطاف حسن قریشی کا انداز بیاں اور ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ وہ خانہ کعبہ کو پہلی بار دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات کے بارے میں لکھتے ہیں: ’مختصر سی سادہ عمارت جس کے اوپر کے حصے پہ سیاہ رنگ کا غلاف چڑھا تھا۔ پہلے ایک زوردار جھٹکا لگا اور پھر اپنے اندر سے ایک عجیب سا احساس امڈتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اس احساس نے وہ تمام دعائیں حافظے سے محو کر دیں جو میں بڑے اہتمام سے یاد کرتا آیا تھا۔ بیت اللہ کی عظمت و ہیبت دل و دماغ پر چھا جانے کی بجائے میرے اندر عبودیت ایک نئے شعور کو جنم دے رہی تھی۔ مجھے اپنی عظمت و سعادت کا شدید احساس ہونے لگا۔ میں خالق کا عظیم شاہکار ہوں۔ میری ذات اس کی عظمت کا اشارہ اور میرا وجود اس کی رحمت کا کنایہ ہے۔ اس کی مشیت مجھے یہاں لے آئی ہے۔ میں اسی کا ہوں اسی کے لیے خاص ہوکر اس کے گھر کا طواف کرنے آیا ہوں‘۔ علامہ اقبال نے کچھ ایسی ہی کیفیت کا اظہار اپنے ایک شعر میں کیا تھا:
متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی
گنبد خضریٰ پر پہلی نظر پڑنے کے بعد اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے محترم الطاف حسن قریشی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’ باب ا لسلام سے داخل ہوئے اور دل کی دھڑکنیں زنجیر پا بن گئیں۔ ادھر محبوب سے ملنے کا شوق اور ادھر اپنی تر دامنی کا خیال۔ قدم اٹھتے اور لڑکھڑا جاتے۔ اتنے میں ایک ریلا آیا اور ہمیں مسجد کے وسط میں لے گیا۔ گنبد خضریٰ پر نظر پڑی تو ضبط کا یارا نہ رہا۔ آنسو تھے کہ امڈتے چلے آ رہے تھے اور دل تھا کہ دھڑکتا ہوا آنکھوں میں امڈ آیا تھا‘۔ مسجد نبوی کے اندر ہی محترم الطاف قریشی کے دماغ میں نعت کی آمد ہوئی جو ایک عطا تھی۔ جس کے چند اشعار نذر قارئین ہیں:
وہی ایک در ہے سجدہ گاہِ دل تو سوچتا کیا ہے
وہیں چل کر کھلے گا زندگی کا مدعا کیا ہے
بہت بےتاب ہے اس کی غلامی کے لیے لیکن
خبر بھی ہے تجھے ناداں تقاضائے وفا کیا ہے
خرد والے نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے الطاف
یہ اہلِ دل سمجھتے ہیں مقام مصطفی کیا ہے
محترم الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں کہ جب وہ تہجد کی نماز کے بعد دوسری بار روضہ رسولﷺ پر حاضر ہوئے تو انھوں نے اپنی نعت دیسی سروں میں پڑھنا شروع کر دی اور جب اس شعر پر پہنچے’ خبر بھی ہے تجھے ناداں تقاضائے وفا کیا ہے‘ تو ان پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔ پھر اس کے بعد کیا ہوا وہ نہیں جانتے۔ جب آنکھ کھلی تو مسجد نبوی کے صحن میں لیٹے ہوئے تھے۔
پاکستان کے ممتاز صحافی محترم مجیب الرحمن شامی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’جناب الطاف قریشی کو بار بار حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ حرمین شریفین کا پہلا سفر 1967ءمیں کیا۔ اس کے بعد تو دل کا قافلہ چلتا چلا گیا۔ شاہ فیصل سے ملاقات کا موقع بھی ملا اور سعودی عرب کے ان گوشوں کو جھانکنے کا اتفاق بھی ہوا جہاں آنکھیں کم ہی پہنچ پاتی ہیں۔ اپنے روحانی تجربات اور حیرت انگیز مشاہدوں کو اس طرح قلمبند کیا کہ اہل دل آج بھی ان کا مطالعہ کرتے اور جھوم جھوم جاتے ہیں۔ وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اسے ان جہانوں میں لے جاتے ہیں بہت سے جن کے بارے میں خواب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ وہ قافلہ دل کے مسافر ہیں اور رہنما بھی‘۔ میرے کلاس فیلو نامور کالم نویس اور ادیب و شاعر عطاءالحق قاسمی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’خدا کا شکر ہے بہت عرصے بعد ایک نہایت خوبصورت اور منفرد انداز بیان کا حامل سفرنامہ حج اور اس سے ہٹ کر بھی بہت قیمتی باتیں پڑھنے کا موقع ملا‘۔ پاکستان کے ولولہ انگیز دانشور محترم اوریا مقبول جان اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’ ان کی نثر میں ایک جادو ہے جو پڑھنے والے کو اپنا اسیر اور گرویدہ بنا لیتا ہے۔ ان کی تحریر’قافلے دل کے چلے‘ کی کیفیت ہی کچھ اور ہے۔ یوں تو یہ حجاز مقدس کا سفر نامہ ہے لیکن اس میں ایک روحانی سفر کی منزلوں کا سحر ہے‘۔
جو احباب حج کے سفر پر جانے کے آرزومند ہیں ان کے لیے زاد راہ تقوی کے علاوہ یہ کتاب بہترین معاون اور رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد حاجی نہ صرف روحانی احوال سے آشنا ہو سکتے ہیں بلکہ مناسک حج بھی خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں۔ محترم الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب میں ان مشکلات کا ذکر بھی کر دیا ہے جو حج کے سفر میں پیش ا ٓسکتی ہیں اور قاری اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے بارے میں بھی تاریخی معلومات شامل کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محترم الطاف حسن قریشی کو دنیا میں ہی بہت سے انعامات سے نوازا ہے ان میں سے ایک ان کا ہونہار اور دانشمند ہوتا ایقان حسن قریشی ہے جو محبت لگن اور محنت کے ساتھ اپنے عظیم دادا کی کتب مرتب کر رہا ہے۔ محترم الطاف حسن قریشی سے چند روز قبل ملاقات ہوئی۔ ماشاءاللہ وہ 93 برس کی عمر میں مکمل طور پر صحت مند ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی صحت مند عمر میں مزید برکت اور طوالت عطا فرمائے اور وہ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے اپنے زندگی بھر کے قلمی ذخیرے کو کتب کی شکل میں مرتب کر سکیں۔