اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بالاآخر انصاف مل ہی گیا، بھلے 34سال بعد۔ ماموں کے ہاتھوں محروم کردی گئی بھانجی کو 34سال کے بعد سپریم کورٹ نے حق دلوا دیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان 3مرتبہ وزیراعظم رہنے والے کو بھی وہ مل گیا جو وہ مانگ رہے تھے۔ سزا کے خلاف اپیلیں نہ صرف بحال بلکہ قرق شدہ املاک۔ اشیاءکی قرقی بھی ختم کرنے کا حکم صادر۔ فوری، بروقت، ٹھوس انصاف کی مثالی صورت یہی ہے جو ہم نے دیکھی اور خواہش ہے کہ نظام عدل کا ترازو ہمیشہ کے لیے بلا امتیاز۔ بنا کسی تفریق، ذات پات کے سب کے لیے برابر ہوتا دیکھ لیں۔ اس ملک میں نظام انصاف اپنے متن کے مطابق نافذ اور فراہم ہو جائے تو پھر ہمیں ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا جس دن یہ معجزہ رونما ہوگیا۔ اس دن لوگ بیرون ممالک آباد ہونے کا سوچنا بھی چھوڑ دیں گے۔
اپیل ہرمجرم کا حق ہے ۔ انتقال کے بعد سماعت کو بد قسمتی قرار دینا ۔ پرویز مشرف کی سزائے موت کی سزا کے خلاف اپیل پر اعلیٰ عدلیہ کا اظہار ۔ اپیل 8سال بعد سماعت کے لیے مقرر ہوئی۔ اس بدقسمتی کو کون ختم کرے گا ؟ ہمارا شمار تو ان حساس لوگوں میں ہوتا ہے جن کی آدھی سے زائد زندگی وطن و قوم کو دیمک کی طرح کھاتے جرائم۔ مافیاز کی طمع، کرپشن پر سے کڑھتے ہوئے گزر گئی ۔ لکھ لکھ کر تھک گئے ۔ بچپن حکام بالا کو (تب کے موجود حکمرانوں) اہم قومی سماجی مسائل پر خطوط لکھ لکھ کر توجہ مبذول کروانے میں گزر گیا تب اتنی خوشی ہوتی تھی فرض ادائیگی پر۔ پر اب تجربات، شعور نے اتنا سمجھا دیا ہے کہ حکام بالا کا مطلب سمجھ آگیا کہ ’بالا‘ تو ’بالا‘ ہی ہوتا ہے ہر درد، احساس ، فرائض سے۔ اب اتنا اضافہ کر دیتی ہوں کہ ’بالاتر‘ سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے۔
ہر وہ فیصلہ جو آئین، قانون کی منشا کے عین مطابق ہو ۔ پتھر کی لکیر ہی ہونا چاہیے۔ فیصلہ اتنا طاقتور ہو کہ کوئی لکیر کو پاٹ ہی نہ سکے۔ خلاف ورزی کسی بھی نوعیت ہو۔ آئین کے مطابق معاملات کو نمٹانے کی روایات پر چلنا اب واقعی لازم ہو چکا ہے۔ قانون موجود ہے بے حد خوبصورت الفاظ سے تراشا ہوا آئین موجود ہے۔ عمل درآمد کے لیے انتہائی فعال، چوکس ادارے برسر عمل ہیں تو پھر خرابی کہاں ہے؟ فساد کی بنیاد کہاں ہے؟ وہ بنیاد جو عمل درآمد کو ممکن نہیں بنانے دیتی ۔ وہ بنیاد، وہ فساد ہماری اپنی نیت ہے ہم اپنی نیت کو صاف، پاک کر لیں تو کچھ بھی دشوار نہیں، ناممکن نہیں ۔ اصل خرابی ہماری اپنی پیدا کردہ ہے۔ سارا قصور ہماری نیت کی فنی خرابی میں مستور ہے جو سب جانتے ہیں مگر جان بوجھ کر غافل، لاتعلق بنے رہتے ہیں کیونکہ کرنے والے کرنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ عمل کریں ۔ عوام کے بنیادی مسائل مثلاً مہنگائی، امن عامہ کی بدترین کیفیت۔ اشرافیہ کی بے لگام اجارہ داری، طمع کارٹلز کی کھلے عام وارداتیں اور نیت کے فتور۔ خوشی ہے کہ آج تک لکھے گئے کالمز کا اکثریتی حصہ متذکرہ بالا نکات پر مبنی ہے۔ قائد اعظم کے اصولوں پر عمل کریں ۔
360 سے ڈالر 270 تک چلا گیا آج 288 کے قریب ہے۔ ایک ماہ قبل پٹرول قیمتوں میں نمایاں کمی 40روپے۔ اس مرتبہ دو رپے کچھ پیسے ۔ کمی تو ہوئی نا۔ ڈالر میں چند پیسوں کے اضافہ کا امکان ظاہر ہوتے ہی اشیائے خوردنوش کی قیمتوں کی طمع زدہ پرواز شروع ہو جاتی تھی تو یہ ثابت ہو گیا کہ ڈالر کا تمام چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ؟ موجودہ صورتحال میں تو چینی، چاول 40،30روپے فی کلو ہونا چاہیے تھے کسی نے آج تک ڈالر کو یکمشت آسمان سے زمین پر آتے دیکھا ؟ ہرگز نہیں ۔ بات ہے کمانڈ کی ۔ اب ضرورت ہے کہ پٹرولیم اور ڈالر کی قیمتوں میں کمی کے مفید اثرات کو اصل معنوں میں عوام تک منتقل کیا جائے۔
ملکی سلامتی کے ساتھ معیشت کی درستی فوج کرے۔ سموگ اور( آئین کی پاسداری کے بعد )ٹریفک نظام کی اصلاح کا بیڑا عدلیہ اٹھالے تو پھر بقیہ کیا بچتا ہے۔ حکومت کا جواز؟ کیا ضروری ہے کہ پھر سے بھاری بھر کم ناکارہ سیاست کوقوم پر لاد دیا جائے ۔ پاکستان میں سالانہ 9ارب ڈالرز حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ صرف لاہور میں گاڑیوں کی تعداد نو لاکھ ہے۔ 28ہزار افراد حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ 90 فیصدبغیر لائسنس کے ہیں۔ عوام کے بارے میں سوچو۔ اللہ رحمن کا خوف کرو ۔ رحم کرو۔ ہمیں اس چیز سے نجات دلائیں ۔ جو سوچنے والی چیز ہے اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا الٹی پلٹی چیزیں سوچتے رہتے ہیں۔ مہنگائی کم کرواو¿۔ ٹرانسپورٹ کے بڑھتے کرائے کم کرواو¿۔سموگ کیا دوکانوں میں گھسی ہوئی ہے اب تو بارش ہوگئی ہے تاجر۔ دیہاڑی دار کا سوچیں ۔ ہر ماہ چھٹیوں کی ایک لمبی لائن آجاتی ہے ہم تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں مزید ظلم نہ کریں۔ اللہ جل جلالہ سے ڈریں۔ خوف کھائیں۔ ظلم نہ کریں۔ نا انصافی نہ پھیلاو¿۔ قائد اعظم کے اصولوں پر عمل کریں ۔
سامان کی مالیت تقریباً 8ہزار سے بھی کم۔ زمین پر بیٹھ کر پورے گھر کا انتظام چلانے والا۔ اس کو بھی گھسیٹا اور ڈالے میں ڈال کر لے گئے ۔ دفعہ 144کی خلاف ورزی کا جرمانہ 15ہزار۔ جرمانہ کون بھرے گا؟ پیدل چلنے والوں کا کیا قصور؟ ہم عوام ہیں عوام کی نہیں کوئی سنے گا تو کون سنے گا ؟ انتہائی جذباتی ردعمل۔ بڑی بڑی غیر اخلاقی باتوں کو چینل والے آف ائیر کر دیتے ہیں ایسے مواقع پر۔ پکا پروگرام سموگ کے بڑھتے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کا لاک ڈاو¿ن کا فیصلہ۔ پھر ایک دن کے یوٹرن کے باوجود پکڑ دھکڑ۔ مقصد بہتری تھا اس میں کوئی شک نہیں مگر اعلان، ایک دن کی کمی۔ نفاذ پھر یکدم واپسی۔ تمام میں عجیب کنفیوزن رہا۔4دن سے زائد یہ عمل۔ رویہ چلتا رہا۔ جہاں بھی بد انتظامی ہوئی ضرور دیکھا جانا چاہیے اور مستقبل میں ضروری ہے کہ مشاورت کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ عوام الناس مطمئن ہوں تبھی عمل درآمد ممکن ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہ تھا ایک دن جیل جائے بغیر اسلامی دنیا کے عظیم لیڈر۔ پاکستان کے سب سے بہادر سپوت قائد اعظم نے دنیائے مملکت کی سب سے بڑی سرزمین حاصل کرلی۔ پاکستان کا وجود ہمارے لیے کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیں اس تصویر میں کہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف جاری پُر تشدد کاروائیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کب کا انڈین صوبہ بن چکا ہوتا اگر ہم ایٹمی قوت نہ ہوتے۔ اب ضروری ہے کہ ہم اپنی پناہ گاہ کو۔ اپنی دھرتی کو پُرامن۔ خوشحال بنانے میں اپنا کردار ایمانداری، خلوص، صاف نیت سے نبھائیں تاکہ ایک مضبوط، پُرسکون، ترقی یافتہ پاکستان کا خواب شرمندہ¿ تعبیر ہو۔ آمین
قائد اعظم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان
Nov 25, 2023