آئی ایم ایف کا وفد آئندہ ہفتے پاکستان آئے گا
کئی مفروضوں کی طرح یہ بھی ایک مفروضہ ہے کہ گزرتے وقت کی طرح، ریت میں جذب ہوئی موج اور گزری زندگی کی طرح مہنگائی واپس بھی کبھی کہوں واپس نہیں جاتی۔ مو¿خرالذکر مفروضہ غلط ثابت ہو چکا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی طوفان کی آتی رہی اور اوپر جاتی رہی ہے مگر اب مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ اس کا کریڈٹ پاکستان کے اسی ادارے کو جاتا ہے جس پر کچھ لوگ بے جا انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ڈالر کہاں تک گیا؟ کتنا گرا ہے؟ یہ سب کے سامنے ہے۔ چکن سبزیوں کی قیمتیں بھی گری ہیں۔ جو ڈنڈے کو پیر سمجھتے ہیں۔ وہ اسی سے سیدھے ہوتے ہیں۔ ڈالر نیچے آ رہا ہے۔ روپیہ تگڑا ہو رہا ہے۔ مہنگائی کا طوفان اتر رہا ہے۔ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا کہ اچانک یہ آئی ایم ایف کے وفد کے پاکستان آنے کی خبر آ گئی۔ جو مہنگائی کے بارے عوام پر بجلی بن کر گری۔ آئی ایم ایف کو ہمارے ہاں ہوا سمجھا جاتا ہے اور ہوا ہی ہے۔ یہ وہ ڈراوا جو ماو¿ں بچوں کو بھبو آیا، راشا آیا، کہہ کر ڈراتی ہیں۔
آئی ایم ایف پاکستان جیسے ممالک کو قرض دیتا ہے۔ اس کو قرض کی واپسی سے غرض ہونی چاہیے۔ جس سے مقروض انکار نہیں کرتا۔ مگر ڈکٹیشن سے حکومت کے لیے پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ حکومت کو مجبوراً عوام کا ٹیکسوں کے ذریعے خون خشک کرنا پڑتا ہے۔ دال روٹی ادرک مولی پیاز کی قیمت بھی اس کی مرضی سے مقرر ہو گی تو عوام نے پٹ سیاپا تو کرنا ہی ہے۔ پہلے حکومت کو کوسنے پھر آئی ایم ایف پر تبریٰ ہوتا۔ کبھی تو آئی ایم ایف خیر کی خبر سنا دے؟ مگر یہ ایسی خواہش ہے جیسی لنگڑا رقص کرنےاور گنجی لٹ لٹکانے کی کرے۔
٭....٭....٭
گٹروں کے فائبر کے ڈھکن بنائیں گے لوہے کے چوری ہو جاتے ہیں: میئر کراچی
لوہے کے ڈھکنوں کی چوری روکنے کے لیے کراچی کے نوجوان میئر کے ذہن رسا میں کیا زبردست آئیڈیا آیا ہے۔ نشئی اب چوری کر کے دکھائیں فائبر کے ڈھکن۔ فائبر کے ڈھکن چور کو پکڑ لیں گے۔ ہو سکتا ہے فائبر کے ڈھکنوں میں کیمرے والی سم لگا دی جائے۔ جہاں تک نشئی یا کوئی بھی تھڑا ہوا کنگلا لوہے کا ڈھکن چرا کر بیچ دیتا ہے وہ فائبر کا چرائے گا اور فروخت کر دے گا۔ لوہے کا ڈھکن سخت ہوتا ہے جبکہ فائبر فلیکس ایبل یعنی لچک والا۔ بھاری بھرکم حضرت یا خاتون کا پاو¿ں پڑے تو؟ پھر وزن دیکھیں، ایسا ہلکا پھلکا کہ تھوڑی سی تیز ہوا چلی جو کراچی میں چلتی رہتی ہے۔ فائبر کے ڈھکن کیا منظرنامہ پیش کریں گے:
ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپتہ ململ کا
ظاہر ہے یہ ڈھکن کلرڈ ہوں گے۔ فائبر ڈھکنوں کا پہلے آئیڈیا فیصل آباد والوں کو آیا تھا۔ بہت پہلے نہیں۔ یہی نومبر کے آغاز میں اسی ماہ بتایا گیا کہ فیصل آباد میں ایک لاکھ تیس ہزار مین ہول ہیں۔ روزانہ تین سو لوہے کے ڈھکن چوری ہو جاتے ہیں۔ واسا کے حکام سرجوڑ کر بیٹھے اور فائبرکے ڈھکن بنانے کا فیصلہ کر کے اٹھے۔ ڈھکن کیسے بنیں گے؟ اس پر سوچا گیا۔ اتنے ڈھکن سینٹری کی دکان سے تو مل نہیں سکتے تھے۔ فیکٹری لگانے کا فیصلہ ہوا۔ 6 کنال اراضی مختص کرنے کی تجویز یہیں دی گئی۔ تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ فیصل آباد میں کم کم و بیش سوا لاکھ مین ہول ہیں۔ کراچی میں کتنے گنا زیادہ ہوں گے۔
اتنے ہی گنا بڑی فیکٹری یا فیکٹریاں لگیں گی۔ ٹھیکے دار ابھی سے سرگرم ہوں گے۔ کراچی میں ویسے ہی بارش زیادہ ہوتس ہے تو پانی بھی زیادہ آتا ہے لہٰذا ڈھکن سوراخوں والے بنائے جائیں۔ بدبو تو اٹھے گی مگر بارش کا پانی آسانی سے گٹر میں گرتا رہے گا۔ خدا کے بندو! ڈھکنوں کی چوری روکنی ہے تو سیمنٹ کے ڈھکن بہترین ہیں۔ ان میں سٹینڈرڈکے مطابق سیمنٹ سریا بجری استعمال کریں۔ کوئی اٹھا بھی لے تو توڑ کر سریہ جو معمولی مقدار میں ہو گا ، نہیں نکال سکے گا۔ ذرا آزمائیں جن گھروں میں فرش بنے ہیں دیواروں پر پلستر ہوا۔ سیمنٹ اور ریت کی مقدار ضرورت کے مطابق رکھی گئی تھی تو دیوار میں سٹیل کا کیل بھی نہیں ٹھونکا جا سکتا ہے۔ سیمنٹ ، بجری ریت کی مناسب مقدار اور پھر پانی سے ترائی لوہے کی طرح سخت مضبوط اور ناقابلِ ریخت بنا دیتی ہے۔
٭....٭....٭
سول ایوی ایشن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا
متعلقہ حکام کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق اب پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دو الگ الگ محکمے بن گئے ہیں۔ اس کا پی آئی اے کو کیا فائدہ ہو گا؟ فائدہ یہ ہو گا ہر ادارے کا الگ سربراہ ہو گا۔ دو ہیڈ ہوں گے۔ نیچے تک عملہ بھی اسی تناسب سے بڑھے گا۔ پی آئی اے کی نفری زیادہ ہو جائے گی۔ سکولوں میں داخلے کے لیے پرائیویٹ ادارے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ایڈ دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کے داخلے کے لیے پرکشش فلیکس بنوا کر مناسب مقامات پر لگواتے ہیں۔ کارکردگی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے۔ پی آئی اے کی نفری بس ایک کے دو محکمے کرنے سے بڑھ جائے گی۔ ان دو اتھارٹیوں کے بعد ملک کے تمام کمرشل ائیر پورٹس ان کا حصہ ہوں گے۔ پہلے کیا حصہ نہیں تھے؟ اور نہیں تھے تو کس کا حصہ تھے؟ یہ اتھارٹی اور پی آئی اے والے ہی جانتے ہوں گے۔ ہمارے پاس ائیر پورٹس بڑھ رہے ہیں۔ مسافروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے مگر پی آئی اے کے جہاز اور پروازیں کم ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں سینکڑوں پروازیں تیل کی کمی کی وجہ سے منسوخ کر دی گئیں۔ یہ نہیں کہ تیل دستیاب نہیں تھا بلکہ تیل کی خریداری کے لیے پیسے نہیں تھے۔ جن سے تیل لیا جاتا ہے انھوں نے ’ادھار بند ہے‘ کا بورڈ لگا دیا۔ دوسرے ممالک میں بھی پی آئی اے کے طیارے اسی وجہ سے ائیر پورٹس پر کھڑے کھڑے کرائے کی رقم بڑھواتے رہے۔ پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار ہوتی تھی۔ اس میں ’انھے وا‘ بھرتیاں ہوئیں تو اپنے ہی بوجھ تلے دب گئی۔ ایمریٹس ائیر لائنز آج دنیا کی دو تین بہترین لائنز میں سے ہے۔ اس کے پاس ہزاروں طیارے ہیں۔ اس ائیر لائنز کا آج تک ایک جہاز بھی حادثے کا شکار نہیں ہوا۔ یہ ائیر لائنز پاکستان سے 1988ءمیں دو جہاز اور عملہ مستعار لے کر کھڑی کی گئی تھی۔ وہ اوپر اٹھتی گئی پی آئی اے نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ انھوں نے جہاز بڑھائے۔ ہم نے بھرتیوں سے نفری بڑھا لی۔ دھڑا دھڑ بھرتی کرنے والوں کا شاید یہ ایمان اور اعتقاد رہا ہے کہ دنیا میں بچے کے آنے سے پہلے اس کا رزق آ جاتا ہے۔ بھرتی سے پہلے ملازم کی تنخواہوں مراعات اور پنشن کا بھی اسی طرح بندوبست ہو جاتا ہے۔ پی آئی اے کو اگر ایسا کوئی مردِ اہل مل جائے جو نفری کے مطابق کام اور جہازوں کا بندوبست کر دے تو پی آئی اے پھرسے باکمال لوگ لاجواب سروس کی مثال بن سکتی ہے۔
٭....٭....٭