نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے پاکستان میں روس کے سفیر ڈینیلا گانچ نے الوداعی ملاقات کی۔ وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روسی سفیر کے گرانقدر تعاون کو سراہا۔ دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ روس، خطے اور بین الاقوامی سطح پر ایک اہم ملک اور پاکستان کا ایک اہم شراکت دار ہے۔ وزیراعظم نے دوطرفہ تعلقات کے مسلسل فروغ پر اطمینان کا اظہار کیا اور باہمی فائدہ مند تعاون کو مزید فروغ دینے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان روابط اور توانائی تعاون کو فروغ دینے کے کلیدی شعبے ہیں جس سے ہمارے لوگوں کے ساتھ ساتھ خطے کو بھی فائدہ ہوگا۔ روسی سفیر کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقات موجودہ حالات میں اہمیت کی حامل ہے۔ روس کی کوشش ہے پاکستان برکس کا ممبر بن سکتا ہے جو آج پاکستان کی اشد ضروت ہے۔پاکستان کی پالیسی عالمی سطح پر متوازن رہی ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد یکطرفہ تعلقات قائم کرکے پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے روس کے دورے کا اعلان کیا۔ پھرکسی دباو¿ پر امریکہ چلے گئے۔ اس پر روس کی طرف سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس نے پاکستان کی اس دور کی قیادت کے اس فیصلے پر بھارت کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا۔ آج بھارت کے پاس اسلحہ کی زیادہ مقدار روسی ساختہ ہے۔ ایٹمی آبدوزوں تک بھارت کو فراہم کی گئیں۔ اس کے پاس فائٹرز اور بمبار جہازوں کی زیادہ تعداد بھی روس سے درآمد کردہ ہے۔آج پاکستان کی خارجہ پالیسی متوازن ہے۔ پاکستان اپنے مفادات کے فیصلے آزادی و خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے کر رہا ہے۔ روس چین کی طرح پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات عالمی سطح پر کارآمد ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کئی عالمی فورمز کا رکن بن سکتا ہے۔ پاکستان کو آج انرجی کی شدید ضرورت ہے۔ روس پاکستان کو سستا فیول تو فراہم کر ہی رہا ہے۔ بجلی اور گیس بھی روس سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہے۔ روس اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی چین کی طرح مدد کر سکتا ہے۔ روس سے دوری اختیار کر کے بھارت کو مضبوط کرنے کا موقع دیا گیا اب صورتحال ریورس ہوتی نظر آرہی ہے۔