پاکستان ٹیم کا دورہ آسٹریلیا شان مسعود کا پہلا امتحان

پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں راولپنڈی میں دورہ آسٹریلیا کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ گذشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین ذکاءاشرف نے بھی کیمپ کا دورہ کیا۔ حالانکہ اس دورے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کھلاڑی معمول کے ٹریننگ سیشن میں مصروف ہیں، وہ ورلڈکپ میں خراب کرکٹ کھیل کر واپس آئے ہیں، کپتان تبدیل ہوئے ہیں انہیں آزادی سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی تیاریاں کرنے دیں۔ کرکٹ بورڈ نے ورلڈکپ کے دوران ہی بابر اعظم کہ ذاتی گفتگو کو لیک کر دیا کیا ان حالات میں چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی کا ٹریننگ کیمپ کا دورہ کرنا بنتا ہے۔ یہ صرف اور صرف چند تصاویر اور ویڈیوز کا دورہ ہے اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیا دنیا میں کہیں اور بھی کرکٹ بورڈز کے چیئرمین اس انداز میں ٹریننگ کیمپ کا دورہ کرتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اصل کام سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے تھے اس وقت بھی انہیں خبروں میں رہنے کا شوق تھا دوسری مرتبہ آئے ہیں تو شوق ناصرف برقرار ہے بلکہ اس میں شدت بھی آ چکی ہے۔ 
جہاں تک تعلق پاکستان ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کا ہے یہ کبھی آسان نہیں رہا۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو بہت مضبوط ٹیموں کو بھی آسٹریلیا میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اور پاکستان کے بہت بڑے بڑے اور کامیاب کھلاڑی بھی آسٹریلیا میں بالخصوص ٹیسٹ میچوں میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم 1995ءمیں آخری مرتبہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہیں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے لیے آسٹریلیا میں ٹیسٹ کرکٹ کتنا بڑا چیلنج رہا ہے۔ یہ ٹیم تو ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ معیاری فاسٹ باو¿لرز نہیں ہیں۔ اس شعبے میں سارا بوجھ شاہین آفریدی پر ہو گا۔ وہ ورلڈکپ میں بھی بہت اچھی کرکٹ نہیں کھیل سکے، انہیں رفتار کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ جب کہ ان کے ساتھ حسن علی دوسرے تجربہ کار باو¿لر ہیں لیکن ان کی کارکردگی بھی عدم تسلسل کا شکار ہے۔ عامر جمال اور خرم شہزاد پہلی مرتبہ ٹیسٹ ٹیم کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ان حالات میں بہت اچھی امیدیں قائم نہیں کی جا سکتیں۔ دوسری طرف بیٹنگ کے حالات بھی ایسے ہی ہیں۔ سارا بوجھ بابر اعظم پر ہو گا چونکہ وہ ٹیم کے سب سے اچھے کامیاب اور تجربہ کار بلے باز ہیں اس لیے ساری بیٹنگ ان کے گرد ہی گھومے گی۔ البتہ بابر اعظم سے زیادہ بڑا امتحان ٹیسٹ ٹیم کے نئے کپتان شان مسعود کا ہے۔ سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس نمبر پر بیٹنگ کرتے ہیں۔ کیا وہ ون ڈاو¿ن آتے ہیں یا پھر افتتاحی جوڑی ایک مرتبہ پھر ٹوٹے گی۔ پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ میچوں میں امام الحق اور عبداللہ شفیق اوپننگ کرتے ہیں۔ شان مسعود بھی ایک اوپنر ہیں لیکن اظہر علی کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد نمبر تین نئے کپتان کے لیے ایک اچھا نمبر ثابت ہو سکتا ہے۔ شان مسعود کی کپتانی سے زیادہ نظریں ان کی بیٹنگ پر ہوں گی کیونکہ گذشتہ سات آٹھ میچوں میں وہ بحیثیت بلے باز متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگر ان کی بیٹنگ میں
 بہتر کھیل پیش نہ کر سکے تو ناصرف ان کے لیے ڈریسنگ روم میں مسائل ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹائے جانے یا ان کے مستعفی ہونے کے فیصلے کو عوامی سطح پر پسند نہیں کیا گیا اس لیے اب کسی بھی ناکامی کی صورت میں کپتان پر سب سے زیادہ بحث ہو گی۔ یوں شان مسعود کے لیے پہلے بیٹنگ میں رنز کرنا اور پھر بہتر کپتانی کے ذریعے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہے۔ ان کے لیے یہ کپتانی کی ذمہ داری اور دورہ آسٹریلیا آسان بالکل نہیں ہے۔ گوکہ شان مسعود مختلف سطح پر کپتانی کا تجربہ ضرور رکھتے ہیں لیکن جب بات پاکستان کی قیادت کے حوالے سے ہوتی ہے تو بہت ساری چیزیں بدل جاتی ہیں۔ بہرحال شان مسعود اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں کے لیے نیک خواہشات ہیں کہ وہ اپنے صلاحیتوں کے مطابق پرفارم کرتے ہوئے ملک و قوم کا نام روشن کریں۔ 
بیٹنگ کے شعبے میں عبداللہ شفیق اور امام الحق کی صلاحیتوں کا بھی اصل امتحان ہے۔ دونوں ٹیسٹ کرکٹ میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کر چکے ہیں اس دورے میں اچھی بیٹنگ سے ان کے بارے میں مکمل طور پر مختلف باتیں ہونا شروع ہو جائیں گی اور اگر وہ ناکام رہتے ہیں تو مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ محمد رضوان، سلمان علی آغا بھی ٹیسٹ ٹیم کا اہم حصہ ہیں جبکہ بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے سعود شکیل جو اب تک پانچ روزہ کرکٹ میں خاصے کامیاب رہے ہیں دیکھنا یہ ہے باونسی پچز پر وہ آسٹریلوی باو¿لرز کی جارحانہ گیند بازی کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں۔ سپنرز میں نظریں نعمان علی اور ابرار احمد پر ہیں۔ ایک طرف کھلاڑی نئے ہیں تو دوسری طرف ٹیم مینجمنٹ بھی نئے لوگوں کی ہے۔ محمد حفیظ کے ساتھ عمر گل اور سعید اجمل نئے کردار نبھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ان تینوں کرکٹرز کے لیے بھی اس ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ کام کرنا کچھ آسان نہیں۔ منصوبہ بندی، حکمت عملی، کھلاڑیوں کو طویل دورانیہ کی کرکٹ کے ذہنی طور پر تیار کرنا، مشکل وقت میں ان میں جیت کے جذبے کو برقرار رکھنا اور متحد ہو کر ٹیم کے لیے کھیلنا یہ نئی ٹیم مینجمنٹ کی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا۔ رہی بات حارث رو¿ف کے انکار کی تو اس حوالے سے بورڈ حکام کا غصہ مناسب نہیں ہے۔ اگر انگلینڈ آسٹریلیا میں کوئی کھلاڑی خود کو کسی فارمیٹ تک محدود رکھنے کی بات کرتا ہے تو اس کے فیصلے کی تعریف کی جاتی ہے پھر حارث رو¿ف کا تو فرسٹ کلاس کرکٹ کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ وہ وائٹ بال کرکٹ کا سپیشلسٹ باو¿لر ہے اور وہاں کھیل رہا ہے۔ سوال تو ان لوگوں سے ہونا چاہیے جو چار پانچ برسوں میں ڈیویلپمنٹ کے نام پر صرف لوگوں کو دھوکہ دیتے رہے ہیں۔

حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس

ای پیپر دی نیشن